کتاب: کون سی چیزیں غسل واجب کرتی ہیں اور کون سی نہیں؟
(
باب: سفر میں تیمم کرنا
)
Sunan-nasai:
Mention When Ghusal (A Purifying Bath) Is Obligatory And When It Is Not
(Chapter: Tayammum During A Journey)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
314.
حضرت عمار بن یاسر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ذات الجیش میں پڑاؤ ڈالا جب کہ آپ کے ساتھ آپ کی زوجۂ محترمہ حضرت عائشہ ؓ بھی تھیں۔ ان کا ایک ہار جو ظفار کے نگوں کا تھا، وہ ٹوٹ گیا۔ لوگ اس ہار کی تلاش میں روک لیے گئے حتیٰ کہ فجر روشن ہوگئی۔ لوگوں کے پاس پانی نہیں تھا۔ حضرت ابوبکر ؓ حضرت عائشہ ؓ پر ناراض ہوئے اور فرمایا: تم نے سب لوگوں کو روک رکھا ہے جب کہ ان کے پاس پانی نہیں ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مٹی کے ساتھ تیمم کی رخصت نازل فرما دی۔ تمام مسلمان رسول اللہ ﷺ کی معیت میں اٹھے اور زمین پر اپنےہاتھ مارے۔ پھر انھوں نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور کوئی مٹی وغیرہ نہیں جھاڑی، سو انھوں نے اپنے چہروں اور بازوؤں کو کندھوں تک اور اپنی ہتھیلیوں سے بغلوں تک ہاتھ پھیر لیے۔
تشریح:
(1) یہ روایت پیچھے گزر چیک ہے (دیکھیے، روایت: ۳۱۱) ’’مٹی وغیرہ نہیں جھاڑی‘‘ مٹی جھاڑنا ضرورت کی بنا پر ہے، یعنی اگر مٹی زیادہ لگ جائے تو پھونک مار کر یا دونوں ہاتھوں کو آپس میں ٹکرا کر زائد مٹی گرا دی جائے اور اگر مٹی مناسب لگی ہے تو پھونک مارنا یا مٹی جھاڑنا بے فائدہ ہے۔ بہر صورت مٹی جھاڑنا تیمم کا حصہ نہیں۔ (2) کندھوں اور بغلوں تک تیمم کرنا باقی روایات کے خلاف ہے، اس لیے بعض محققین نے مسح میں کندھوں، بغلوں اور کہنیوں تک مسح کرنے کو صحیح نہیں کہا بلکہ ان الفاظ کو شاذ قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (صحیح سنن أبی داود للألبانی، رقم: ۳۴۴، ۳۴۵، و صحیح سنن النسائي، رقم: ۳۱۵) بعض لوگوں نے اپنے طور پر ایسا کر لیا تھا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا منقول نہیں اور یہ کام بھی نزول حکم کے بعد پہلی بار تیمم کرتے ہوئے کیا گیا تھا جب کہ بعد میں اس کا طریقہ سنت نبوی سے متعین ہوگیا۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح) .
إسناده: حدثنا سليمان بن داود المَهْرِيُّ وعبد الملك بن شعيب عن ابن
وهب... نحو هذا الحديث. قال ابن الليث: إلى ما فوق المرفقين.
قلت: يعني: بإسناده السابق.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات؛ لولا ما فيه من الانقطاع الذي
ذكرناه فيما قبل؛ إلا أننا قد ذكرنا أيضا أنه صَح موصولاً من وجهين، ذكرنا
أحدهما. وأما الآخر فهو:
حضرت عمار بن یاسر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ذات الجیش میں پڑاؤ ڈالا جب کہ آپ کے ساتھ آپ کی زوجۂ محترمہ حضرت عائشہ ؓ بھی تھیں۔ ان کا ایک ہار جو ظفار کے نگوں کا تھا، وہ ٹوٹ گیا۔ لوگ اس ہار کی تلاش میں روک لیے گئے حتیٰ کہ فجر روشن ہوگئی۔ لوگوں کے پاس پانی نہیں تھا۔ حضرت ابوبکر ؓ حضرت عائشہ ؓ پر ناراض ہوئے اور فرمایا: تم نے سب لوگوں کو روک رکھا ہے جب کہ ان کے پاس پانی نہیں ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مٹی کے ساتھ تیمم کی رخصت نازل فرما دی۔ تمام مسلمان رسول اللہ ﷺ کی معیت میں اٹھے اور زمین پر اپنےہاتھ مارے۔ پھر انھوں نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور کوئی مٹی وغیرہ نہیں جھاڑی، سو انھوں نے اپنے چہروں اور بازوؤں کو کندھوں تک اور اپنی ہتھیلیوں سے بغلوں تک ہاتھ پھیر لیے۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ روایت پیچھے گزر چیک ہے (دیکھیے، روایت: ۳۱۱) ’’مٹی وغیرہ نہیں جھاڑی‘‘ مٹی جھاڑنا ضرورت کی بنا پر ہے، یعنی اگر مٹی زیادہ لگ جائے تو پھونک مار کر یا دونوں ہاتھوں کو آپس میں ٹکرا کر زائد مٹی گرا دی جائے اور اگر مٹی مناسب لگی ہے تو پھونک مارنا یا مٹی جھاڑنا بے فائدہ ہے۔ بہر صورت مٹی جھاڑنا تیمم کا حصہ نہیں۔ (2) کندھوں اور بغلوں تک تیمم کرنا باقی روایات کے خلاف ہے، اس لیے بعض محققین نے مسح میں کندھوں، بغلوں اور کہنیوں تک مسح کرنے کو صحیح نہیں کہا بلکہ ان الفاظ کو شاذ قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (صحیح سنن أبی داود للألبانی، رقم: ۳۴۴، ۳۴۵، و صحیح سنن النسائي، رقم: ۳۱۵) بعض لوگوں نے اپنے طور پر ایسا کر لیا تھا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا منقول نہیں اور یہ کام بھی نزول حکم کے بعد پہلی بار تیمم کرتے ہوئے کیا گیا تھا جب کہ بعد میں اس کا طریقہ سنت نبوی سے متعین ہوگیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عمار ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات کے پچھلے پہر اولات الجیش میں اترے، آپ کے ساتھ آپ کی بیوی عائشہ ؓ بھی تھیں، تو ان کا ظفار کے مونگوں والا ہار ٹوٹ کر گر گیا، تو ان کے اس ہار کی تلاش میں لوگ روک لیے گئے یہاں تک کہ فجر روشن ہو گئی، اور لوگوں کے پاس پانی بالکل نہیں تھا، تو ابوبکر ؓ عائشہ ؓ پر ناراض ہوئے، اور کہنے لگے: تم نے لوگوں کو روک رکھا ہے اور حال یہ ہے کہ ان کے پاس پانی بالکل نہیں ہے، تو اللہ عزوجل نے مٹی سے تیمم کرنے کی رخصت نازل فرمائی، عمار ؓ کہتے ہیں: تو مسلمان رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کھڑے ہوئے، اور ان لوگوں نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر مارا، پھر انہیں بغیر جھاڑے اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں پر مونڈھوں تک اور اپنے ہاتھوں کے نیچے (کے حصہ پر) بغل تک مل لیا۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : ایسا ان لوگوں نے اس وجہ سے کیا ہو گا کہ ممکن ہے پہلے یہی مشروع رہا ہو، پھر منسوخ ہو گیا ہو، یا ان لوگوں نے اپنے اجتہاد سے بغیر پوچھے ایسا کیا ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that ‘Ammar said: “The Messenger of Allah (ﷺ) stopped to rest at the end of the night in Uwlat Al-Jaish. His wife 'Aishah (RA) was with him and her necklace of Zifar beadst broke and fell. The army was detained looking for that necklace of hers until the break of the light of dawn and the people had no water with them. Abu Bakr (RA) got angry with her and said: ‘You have detained the people and they do not have any water.’ Then Allah the Mighty and Sublime revealed the concession allowing Tayammum with clean earth. So the Muslims got up with the Messenger of Allah (ﷺ) and struck the earth with their hands, then they raised their hands and did not strike them together to knock off any of the dust, then they wiped their faces and arms up to the shoulders, and from the inner side of their of their arms up to the armpits.” (Sahih)