باب: جو شخص اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرے اور اس کے ذمے قرض ہو
)
Sunan-nasai:
The Book of Jihad
(Chapter: The One Who Fights In The Cause Of Allah But Owes A Debt)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3155.
حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا: ایک آدمی نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ منبر پر خطبہ ارشاد فرمارہے تھے۔ وہ کہنے لگا: آپ فرمائیں اگر میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں ثابت قدمی سے لڑتا ہوا مارا جاؤں جب کہ میری نیت بھی ثواب ہی کی ہو‘ رخ میدان جنگ کی طرف ہو‘ پیٹھ نہ ہو‘ تو کیا اللہ تعالیٰ میرے سب گناہ معاف فرمادے گا؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں‘‘۔ پھر آپ کچھ دیر خاموش رہے۔ پھر فرمایا: ’’وہ شخص کدھر ہے جس نے ابھی سوال کیا تھا؟‘‘ اس آدمی نے کہا: میں یہ کھڑا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’تونے کیا کہا تھا؟‘‘ ا س نے کہا: اگر میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں ثابت قدمی سے لڑتا ہوا مارا جاؤں جب کہ میری نیت بھی ثواب کی ہو۔ میرا رخ دشمن کی طرف ہو نہ کہ پیٹھ‘ تو کیا اللہ تعالیٰ میرے تمام گناہ معاف فرمادے گا؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں‘ لیکن قرض (کسی کا واجب الادا حق معاف نہ ہوگا)۔ جبریل ؑ نے یہ بات مجھے ابھی چپکے سے بتائی ہے۔‘‘
تشریح:
(1) معلوم ہوا کہ سب سے بڑی نیکی ’’شہادت‘‘ بھی حقوق العباد کی معافی کا ذریعہ نہیں بن سکتی تو دوسری نیکیوں کیونکر حقوق العباد کو ختم کرسکتی ہیں؟ الا یہ کہ حقوق العباد کی ادائیگی کے بعد نیکیاں بچ جائیں۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جس پربھی کوئی ’حق‘‘واجب الادا ہوگا‘ وہ جنت میں نہیں جائے گا کیونکہ ممکن ہے وہ حق اداکرنے کے بعد بھی نیکیاں بچ جائیں‘ تو اسے کوئی چیز جنت میںجنے سے مانع نہ ہوگی۔ س حدیث کا مطلب صرف یہ ہے کہ شہادت کے باوجود حقوق العباد کی ادائیگی واجب ہے‘ معاف نہیں ہوگی‘ نیز یہ بھی تب ہے اگر وہ اس حق کے برابر ترکہ چھوڑ کر نہ جائے۔ اگر وہ اس حق کی ادائیگی کے لیے ترکہ چھوڑ گیا اور اس کی طرف سے دنیا ہی میں ادا کردیا گیا تو آخرت میں پوچھ گچھ نہ ہوگی۔ الا یہ کہ ا س کا قصور ہو‘ یعنی وہ اس حق کی ادائیگی سے منع کرکے گیا ہو‘ وغیرہ۔ (2) ’’جبریل علیہ السلام نے‘‘ معلوم ہوتا وحی کی معروف صورت کے علاوہ بھی کبھی فرشتہ آپ سے براہ راست کلام کرتا تھا‘ البتہ قرآنی وحی مخصوص طریقے ہی سے آتی تھی جسے صحابہ پہنچاتے تھے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا: ایک آدمی نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ منبر پر خطبہ ارشاد فرمارہے تھے۔ وہ کہنے لگا: آپ فرمائیں اگر میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں ثابت قدمی سے لڑتا ہوا مارا جاؤں جب کہ میری نیت بھی ثواب ہی کی ہو‘ رخ میدان جنگ کی طرف ہو‘ پیٹھ نہ ہو‘ تو کیا اللہ تعالیٰ میرے سب گناہ معاف فرمادے گا؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں‘‘۔ پھر آپ کچھ دیر خاموش رہے۔ پھر فرمایا: ’’وہ شخص کدھر ہے جس نے ابھی سوال کیا تھا؟‘‘ اس آدمی نے کہا: میں یہ کھڑا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’تونے کیا کہا تھا؟‘‘ ا س نے کہا: اگر میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں ثابت قدمی سے لڑتا ہوا مارا جاؤں جب کہ میری نیت بھی ثواب کی ہو۔ میرا رخ دشمن کی طرف ہو نہ کہ پیٹھ‘ تو کیا اللہ تعالیٰ میرے تمام گناہ معاف فرمادے گا؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں‘ لیکن قرض (کسی کا واجب الادا حق معاف نہ ہوگا)۔ جبریل ؑ نے یہ بات مجھے ابھی چپکے سے بتائی ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) معلوم ہوا کہ سب سے بڑی نیکی ’’شہادت‘‘ بھی حقوق العباد کی معافی کا ذریعہ نہیں بن سکتی تو دوسری نیکیوں کیونکر حقوق العباد کو ختم کرسکتی ہیں؟ الا یہ کہ حقوق العباد کی ادائیگی کے بعد نیکیاں بچ جائیں۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جس پربھی کوئی ’حق‘‘واجب الادا ہوگا‘ وہ جنت میں نہیں جائے گا کیونکہ ممکن ہے وہ حق اداکرنے کے بعد بھی نیکیاں بچ جائیں‘ تو اسے کوئی چیز جنت میںجنے سے مانع نہ ہوگی۔ س حدیث کا مطلب صرف یہ ہے کہ شہادت کے باوجود حقوق العباد کی ادائیگی واجب ہے‘ معاف نہیں ہوگی‘ نیز یہ بھی تب ہے اگر وہ اس حق کے برابر ترکہ چھوڑ کر نہ جائے۔ اگر وہ اس حق کی ادائیگی کے لیے ترکہ چھوڑ گیا اور اس کی طرف سے دنیا ہی میں ادا کردیا گیا تو آخرت میں پوچھ گچھ نہ ہوگی۔ الا یہ کہ ا س کا قصور ہو‘ یعنی وہ اس حق کی ادائیگی سے منع کرکے گیا ہو‘ وغیرہ۔ (2) ’’جبریل علیہ السلام نے‘‘ معلوم ہوتا وحی کی معروف صورت کے علاوہ بھی کبھی فرشتہ آپ سے براہ راست کلام کرتا تھا‘ البتہ قرآنی وحی مخصوص طریقے ہی سے آتی تھی جسے صحابہ پہنچاتے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ منبر پر خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص نے آ کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ بتائیے اگر میں اللہ کے راستے میں ثواب کی نیت رکھتے ہوئے جنگ کروں ، اور جم کر لڑوں ، آگے بڑھتا رہوں پیٹھ دکھا کر نہ بھاگوں ، تو کیا اللہ تعالیٰ میرے گناہ مٹا دے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” ہاں “ ، پھر ایک لمحہ خاموشی کے بعد آپ نے پوچھا : ” سائل اب کہاں ہے “ ؟ وہ آدمی بولا : ہاں ( جی ) میں حاضر ہوں ، ( یا رسول اللہ ! ) آپ نے فرمایا : ” تم نے کیا کہا تھا ؟ “ اس نے کہا : آپ بتائیں اگر میں اللہ کے راستے میں جم کر اجر و ثواب کی نیت سے آگے بڑھتے ہوئے ، پیٹھ نہ دکھاتے ہوئے لڑتا ہوا مارا جاؤں تو کیا اللہ میرے گناہ بخش دے گا ؟ آپ نے فرمایا : ” ہاں ( بخش دے گا ) سوائے قرض کے ، جبرائیل ؑ نے آ کر ابھی ابھی مجھے چپکے سے یہی بتایا ہے “ ۱؎ ۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : قرض معاف نہیں کرے گا کیونکہ یہ بندے کا حق ہے ، اس کے ادا کرنے یا بندہ کے معاف کرنے سے ہی اس سے چھٹکارا ملے گا ، گویا قرض+دار ہونا یہ باعث گناہ نہیں ہے بلکہ طاقت رکھتے ہوئے قرض ادا نہ کرنا یہ باعث گناہ ہے ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Hurairah said: "A man came to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) while he was delivering a Khutbah from the Minbar, and he said: 'If I fight in the cause of Allah with patience and seeking reward, facing the enemy and not running away, do you think that Allah will forgive my sins?' He said: 'Yes.' Then he fell silent for a while. Then he said: 'Where is the one who was asking just now?' The man said: 'Here I am.' He said: 'What did you say?' He said: 'What did you say?' He said: 'I said: I said: If I fight in the cause of Allah with patience and seeking reward,facing the enemy and not running away, do you think that Allah will forgive my sins?' He said: 'Yes, except for debt. Jibril told me that just now.