باب: جو شخص اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرے اور اس کے ذمے قرض ہو
)
Sunan-nasai:
The Book of Jihad
(Chapter: The One Who Fights In The Cause Of Allah But Owes A Debt)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3158.
حضرت ابوقتادہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبیﷺ کے پاس آیا۔ آپ منبر پر (خطبہ ارشاد فرمارہے) تھے۔ وہ کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! آپ فرمائیے اگر میں اپنی تلوار کے ساتھ اللہ کے راستے میں ثابت قدمی کے ساتھ لڑائی لڑوں جب کہ میری نیت بھی ثواب حاصل کرنے کی ہو‘ منہ دشمن کی ھرف ہو نہ کہ پیٹھ‘ حتیٰ کہ میں مارا جاؤں‘ تو کیا اللہ تعالیٰ میری غلطیاں معاف فرمادے گا؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ جب وہ جانے کے لیے مڑا تو آپ نے اسے بلایا اور فرمایا: ’’یہ جبریل ؑ فرمارہے ہیں کہ غلطیاں تو معاف ہوجائیں گی لیکن تیرے ذمے واجب الادا حقوق ہوئے تو وہ معاف نہیں ہوں گے۔
تشریح:
’’واجب الادا حقوق‘‘ عربی عبارت میں دَیْنَ استعمال فرمایا گیا ہے جس کے معنی عموماً قرض کے کرلیے جاتے ہیں مگر یہ اس کے حقیقی معنی نہیں بلکہ اس کی ایک صورت ہے۔ دَیْنَ سے مراد وہ حق ہے جو کسی کے ذمے دوسرے کے لیے واجب الادا ہو‘ خواہ وہ قرض ہو یا کسی پر زیادتی کی ہو‘ جب کہ قرض تو یہ ہے کہ کسی سے کوئی چیز عاریتاً لی ہو اور اسے مدت مقرر پر واپس کرنا ہو۔ ضرورت کے موقع پر قرض لینا جائز ہے۔ خود رسول اللہﷺ نے لیا ہے‘ البتہ وقت مقرر پر‘ باوجود وسعت کے‘ ادا نہ کرنا یا لینا یا لیتے وقت ہی عدم ادائیگی کی نیت رکھنا جرم ہے۔ ادائیگی کی نیت ہو عدم وسعت کی بنا پر ادا نہ کرسکے تو یہ جرم نہیں۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے‘ حدیث: ۳۱۵۷)
حضرت ابوقتادہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبیﷺ کے پاس آیا۔ آپ منبر پر (خطبہ ارشاد فرمارہے) تھے۔ وہ کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! آپ فرمائیے اگر میں اپنی تلوار کے ساتھ اللہ کے راستے میں ثابت قدمی کے ساتھ لڑائی لڑوں جب کہ میری نیت بھی ثواب حاصل کرنے کی ہو‘ منہ دشمن کی ھرف ہو نہ کہ پیٹھ‘ حتیٰ کہ میں مارا جاؤں‘ تو کیا اللہ تعالیٰ میری غلطیاں معاف فرمادے گا؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ جب وہ جانے کے لیے مڑا تو آپ نے اسے بلایا اور فرمایا: ’’یہ جبریل ؑ فرمارہے ہیں کہ غلطیاں تو معاف ہوجائیں گی لیکن تیرے ذمے واجب الادا حقوق ہوئے تو وہ معاف نہیں ہوں گے۔
حدیث حاشیہ:
’’واجب الادا حقوق‘‘ عربی عبارت میں دَیْنَ استعمال فرمایا گیا ہے جس کے معنی عموماً قرض کے کرلیے جاتے ہیں مگر یہ اس کے حقیقی معنی نہیں بلکہ اس کی ایک صورت ہے۔ دَیْنَ سے مراد وہ حق ہے جو کسی کے ذمے دوسرے کے لیے واجب الادا ہو‘ خواہ وہ قرض ہو یا کسی پر زیادتی کی ہو‘ جب کہ قرض تو یہ ہے کہ کسی سے کوئی چیز عاریتاً لی ہو اور اسے مدت مقرر پر واپس کرنا ہو۔ ضرورت کے موقع پر قرض لینا جائز ہے۔ خود رسول اللہﷺ نے لیا ہے‘ البتہ وقت مقرر پر‘ باوجود وسعت کے‘ ادا نہ کرنا یا لینا یا لیتے وقت ہی عدم ادائیگی کی نیت رکھنا جرم ہے۔ ادائیگی کی نیت ہو عدم وسعت کی بنا پر ادا نہ کرسکے تو یہ جرم نہیں۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے‘ حدیث: ۳۱۵۷)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا ، اس وقت آپ منبر پر ( کھڑے خطاب فر رہے ) تھے ، اس نے کہا : اللہ کے رسول ! آپ بتائیے اگر میں اپنی تلوار اللہ کے راستے میں چلاؤں ، ثابت قدمی کے ساتھ ، بہ نیت ثواب ، سینہ سپر رہوں پیچھے نہ ہٹوں یہاں تک کہ قتل کر دیا جاؤں تو کیا اللہ تعالیٰ میرے سبھی گناہوں کو مٹا دے گا ؟ آپ نے فرمایا : ” ہاں “ ، پھر جب وہ جانے کے لیے مڑا ، آپ نے اسے بلایا اور کہا : ” یہ جبرائیل ہیں ، کہتے ہیں : مگر یہ کہ تم پر قرض ہو “ ( تو قرض معاف نہیں ہو گا ) ۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Abdullah bin Abi Qatadah that his father said: "A man came to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) when he was on the Minbar and said: 'O Messenger of Allah, do you think that if I wield this sword of mine in the cause of Allah, with patience and seeking reward, facing the enemy, and not running away, will Allah forgive my sins?' He said: 'Yes.' When he turned away, he called him back and said: 'Jibril says: unless you are in debt.