Sunan-nasai:
The Book of Marriage
(Chapter: Marrying An Adulteress)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3229.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: میرے نکاح میں ایک عورت ہے جو مجھے سب لوگوں سے زیادہ پیاری ہے مگر وہ کسی چھیڑ چھاڑ کرنے والے کو نہیں روکتی۔ آپ نے فرمایا: ”اسے طلاق دے دے۔“ وہ کہنے لگا: میں اس سے صبر نہیں کرسکتا۔ آپ نے فرمایا: ”پھر اسی طرح فائدہ اٹھاتا رہ۔“ ابوعبدالرحمن (امام نسائی ؓ ) بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے کیونکہ عبدالکریم (راوی) قوی نہیں ہے، جبکہ ہارون بن رئاب اس سے زیادہ بہتر ہے۔ اور اس نے اس حدیث کو مرسل بیان کیا ہے۔ چونکہ ہارون ثقہ ہے،ٍٍ لہٰذا عبدالکریم کے بجائے اس کی حدیث صحیح کہلانے کے زیادہ لائق ہے۔
تشریح:
(1) [لاتَرُدُّ يدَ لامِسٍ] اس کے مفہوم میں اختلاف ہے۔ بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ وہ عورت چھیڑ چھاڑ کو برا محسوس نہیں کرتی تھی اور چھیڑ چھاڑ کرنے والے کو روکتی نہیں تھی۔ بعض نے اس سے مراد مالی سخاوت لی ہے، یعنی وہ عورت بہت زیادہ صدقہ وخیرات کرتی تھی۔ یہ بات تو پکی ہے وہ عورت فاحشہ نہ تھی ورنہ رسول اللہﷺ اسے اپنے پاس ٹھہرائے رکھنے کا اختیار کبھی نہ دیتے کیونکہ دینی مسائل میں آپ وحی کے بغیر نہیں بولتے تھے۔ ارشاد ربانی تعالیٰ ہے: {وَماَ یَنْطِقُ عَنِ الْھَوَی اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُوْحیٰ} اور وحی میں فحاشی کی ممانعت ہے اجازت نہیں۔ {وَیَنْھیٰ عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ} (الأعراف ۷:۲۸) نیز ایسی بیوی کو اگر خاوند برداشت کرے تو وہ دیوث کہلاتا ہے۔ اور دیوث کے بارے میں وعید ہے۔ سخاوت والا مفہو م بھی معتبر نہیں، اس لیے کہ سخاوت مندوب ومطلوب چیز ہے۔ ایسی خاتون کو تنبیہ کی جاسکتی ہے، خاوند اس پر پابندی عائد کرسکتا ہے اور اس کا خرچ تو کم کرسکتا ہے، لیکن اس کی وجہ سے طلاق کسی صورت بھی جائز نہیں، نہ نبیﷺ اس کا حکم ہی دے سکتے ہیں، نیز اگر یہ معنیٰ ہوتے تو[یَدَ لاَمِسٍ] کی بجائے یَدَ مُلْتَمِسٍ ہونا چاہیے تھا کیونکہ سائل کو متلمس کہتے ہیں لامس نہیں۔ بہر حال اس کا راجح مفہوم یہ ہے کہ خاوند کو اپنی بیوی کی طبیعت اور مزاج کا علم تھا۔ اس نے قرآئن کی رو سے یہ اندازہ لگایا کہ اگر کوئی اسے چھیڑنا چاہے تو یہ اسے روک نہیں سکے گی۔ فی الواقع ایسا ہوا نہیں تھا۔ اس خدشے کا اظہار انہوں نے نبی اکرمﷺ سے کیا تو اس خدشے سے بچنے کے لیے آپ نے اسے الگ کردینے کا مشورہ دیا، پھر جب اس نے اس سے اپنی بے پناہ محبت کا اظہار کیا تو آپ نے اسے عقد میں رکھنے کا مشورہ دیا کیونکہ محض وہم اور اندیشے کی بنا پر اسے الگ کردینا درست نہ تھا۔ واللہ أعلم۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ اور شیخ ایتوبی نے بھی اسی مفہوم کو راجح قراردیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذحیرة العقبیٰ‘ شرح سنن النسائي: ۲۷/۱۰۵۔۱۰۷) (2) امام نسائی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ یہ روایت مرسل صحیح ہے، یعنی اس میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ذکر صحیح نہیں۔ بعض نے اس حدیث کو موضوع قراردیا ہے مگر یہ بات صحیح نہیں ہے۔ درست یہ ہے کہ یہ حدیث متصلاً بھی حسن صحیح ہے کیونکہ یہ دیگر صحیح سندوں سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے متصلاً ثابت ہے۔ دیکھیے‘ حدیث:۳۴۹۴‘ ۳۴۹۵۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3231
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3229
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3231
تمہید کتاب
نکاح سے مراد ایک مرد اور عورت کا اپنی اور ا ولیاء کی رضا مندی سے علانیہ طور پر ایک دوسرے کے ساتھ خاص ہوجانا ہے تاکہ وہ اپنے فطری تقاضے بطریق احسن پورے کرسکیں کیونکہ اسلام دین فطرت ہے‘ اس لیے ا س میں نکاح کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے اور دوسرے ادیان کے برعکس نکاح کرنے والے کی تعریف کی گئی ہے اور نکاح نہ کرنے والے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ نکاح سنت ہے اور اس سنت کے بلاوجہ ترک کی اجازت نہیں کیونکہ اس کے ترک سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوں گی۔ علاوہ ازیں نکاح نسل انسانی کی بقا کا انتہائی مناسب طریقہ ہے۔ نکاح نہ کرنا اپنی جڑیں کاٹنے کے مترادف ہے اور یہ جرم ہے اسی لیے تمام انبیاء عؑنے نکاح کیے اور ان کی اولاد ہوئی
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: میرے نکاح میں ایک عورت ہے جو مجھے سب لوگوں سے زیادہ پیاری ہے مگر وہ کسی چھیڑ چھاڑ کرنے والے کو نہیں روکتی۔ آپ نے فرمایا: ”اسے طلاق دے دے۔“ وہ کہنے لگا: میں اس سے صبر نہیں کرسکتا۔ آپ نے فرمایا: ”پھر اسی طرح فائدہ اٹھاتا رہ۔“ ابوعبدالرحمن (امام نسائی ؓ ) بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے کیونکہ عبدالکریم (راوی) قوی نہیں ہے، جبکہ ہارون بن رئاب اس سے زیادہ بہتر ہے۔ اور اس نے اس حدیث کو مرسل بیان کیا ہے۔ چونکہ ہارون ثقہ ہے،ٍٍ لہٰذا عبدالکریم کے بجائے اس کی حدیث صحیح کہلانے کے زیادہ لائق ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) [لاتَرُدُّ يدَ لامِسٍ] اس کے مفہوم میں اختلاف ہے۔ بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ وہ عورت چھیڑ چھاڑ کو برا محسوس نہیں کرتی تھی اور چھیڑ چھاڑ کرنے والے کو روکتی نہیں تھی۔ بعض نے اس سے مراد مالی سخاوت لی ہے، یعنی وہ عورت بہت زیادہ صدقہ وخیرات کرتی تھی۔ یہ بات تو پکی ہے وہ عورت فاحشہ نہ تھی ورنہ رسول اللہﷺ اسے اپنے پاس ٹھہرائے رکھنے کا اختیار کبھی نہ دیتے کیونکہ دینی مسائل میں آپ وحی کے بغیر نہیں بولتے تھے۔ ارشاد ربانی تعالیٰ ہے: {وَماَ یَنْطِقُ عَنِ الْھَوَی اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُوْحیٰ} اور وحی میں فحاشی کی ممانعت ہے اجازت نہیں۔ {وَیَنْھیٰ عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ} (الأعراف ۷:۲۸) نیز ایسی بیوی کو اگر خاوند برداشت کرے تو وہ دیوث کہلاتا ہے۔ اور دیوث کے بارے میں وعید ہے۔ سخاوت والا مفہو م بھی معتبر نہیں، اس لیے کہ سخاوت مندوب ومطلوب چیز ہے۔ ایسی خاتون کو تنبیہ کی جاسکتی ہے، خاوند اس پر پابندی عائد کرسکتا ہے اور اس کا خرچ تو کم کرسکتا ہے، لیکن اس کی وجہ سے طلاق کسی صورت بھی جائز نہیں، نہ نبیﷺ اس کا حکم ہی دے سکتے ہیں، نیز اگر یہ معنیٰ ہوتے تو[یَدَ لاَمِسٍ] کی بجائے یَدَ مُلْتَمِسٍ ہونا چاہیے تھا کیونکہ سائل کو متلمس کہتے ہیں لامس نہیں۔ بہر حال اس کا راجح مفہوم یہ ہے کہ خاوند کو اپنی بیوی کی طبیعت اور مزاج کا علم تھا۔ اس نے قرآئن کی رو سے یہ اندازہ لگایا کہ اگر کوئی اسے چھیڑنا چاہے تو یہ اسے روک نہیں سکے گی۔ فی الواقع ایسا ہوا نہیں تھا۔ اس خدشے کا اظہار انہوں نے نبی اکرمﷺ سے کیا تو اس خدشے سے بچنے کے لیے آپ نے اسے الگ کردینے کا مشورہ دیا، پھر جب اس نے اس سے اپنی بے پناہ محبت کا اظہار کیا تو آپ نے اسے عقد میں رکھنے کا مشورہ دیا کیونکہ محض وہم اور اندیشے کی بنا پر اسے الگ کردینا درست نہ تھا۔ واللہ أعلم۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ اور شیخ ایتوبی نے بھی اسی مفہوم کو راجح قراردیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذحیرة العقبیٰ‘ شرح سنن النسائي: ۲۷/۱۰۵۔۱۰۷) (2) امام نسائی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ یہ روایت مرسل صحیح ہے، یعنی اس میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ذکر صحیح نہیں۔ بعض نے اس حدیث کو موضوع قراردیا ہے مگر یہ بات صحیح نہیں ہے۔ درست یہ ہے کہ یہ حدیث متصلاً بھی حسن صحیح ہے کیونکہ یہ دیگر صحیح سندوں سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے متصلاً ثابت ہے۔ دیکھیے‘ حدیث:۳۴۹۴‘ ۳۴۹۵۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر کہا: میری ایک بیوی ہے جو مجھے سبھی لوگوں سے زیادہ محبوب ہے مگر خرابی یہ ہے کہ وہ کسی کو ہاتھ لگانے سے نہیں روکتی،۱؎ آپ نے فرمایا: ”اسے طلاق دے دو“، اس نے کہا: میں اس کے بغیر رہ نہ پاؤں گا۔ تو آپ نے کہا: پھر تو تم اس سے فائدہ اٹھاؤ (اور وہ جو دوسروں کو تیرا مال لے لینے دیتی ہے ، اسے نظر انداز کر دے)۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: یہ حدیث ( صحیح ) ثابت نہیں ہے، عبدالکریم (راوی) زیادہ قوی نہیں ہے اور ہارون بن رئاب (راوی) عبدالکریم سے زیادہ قوی راوی ہیں۔ انہوں نے اس حدیث کو مرسل بیان کیا ہے ہارون ثقہ راوی ہیں اور ان کی حدیث عبدالکریم کی حدیث کے مقابل میں زیادہ صحیح اور درست لگتی ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس کے دو مفہوم ہیں، ایک مفہوم تو یہ ہے کہ وہ فسق و فجور میں مبتلا ہو جاتی ہے، دوسرا مفہوم یہ ہے کہ شوہر کا مال ہر مانگنے والے کو اس کی اجازت کے بغیر دے دیتی ہے، یہ مفہوم مناسب اور بہتر ہے کیونکہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا کہنا ہے: یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اللہ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی فاجرہ عورت کو روکے رکھنے کا مشورہ دیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas: It was narrated from Ibn 'Abbas that a man came to the Messenger of Allah and said: "I have a wife who is one of the most beloved of the people to me, but she does not object if anyone touches her." He said: "Divorce her." He said: "I cannot do without her." He said: "Then stay with her as much as you need to.