باب: کسی کے پیغام نکاح پر پیغام نکاح بھیجنے کی ممانعت
)
Sunan-nasai:
The Book of Marriage
(Chapter: Prohibition of Proposing Marriage To A Woman When Someone Else Has Already Proposed To Her)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3238.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص کسی دوسرے کے پیغام نکاح پر اپنا پیغام نکاح نہ بھیجے۔“
تشریح:
(1) کسی کے پیغام پر پیغام بھیجنا اخلاق کے منافی ہے بلکہ حسد اور خود غرضی کا آئینہ دار ہے، اس لیے اسلام نے ا س سے منع فرمایا ہے۔ شریعت اسلامی کا یہ طرۂ امتیاز ہے کہ یہ فرد اور معاشرے کی اصلاح کرتی ہے، باہمی الفت اور مودت کی ترغیب اور اختلاف، دشمنی اور نفرت کا سبب بننے والی ہر چیز سے روکتی ہے۔ (2) ہاں اگر پیغام رد ہوجائے یا عورت اور اس کے ولی مزید پیغامات کے خواہش مند ہوں یا پہلے پیغام بھیجنے والا اجازت دے دے یا ایک ہی وقت میں دو تین پیغام آجائیں تو کوئی حرج نہیں، پیغام بھیجا جاسکتا ہے۔ منع تب ہے جب بات چیت چل رہی ہو اور رجحان ہوچکا ہو، پیغام قبول ہوچکا ہو یا قبولیت کے قریب ہو۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3240
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3238
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3240
تمہید کتاب
نکاح سے مراد ایک مرد اور عورت کا اپنی اور ا ولیاء کی رضا مندی سے علانیہ طور پر ایک دوسرے کے ساتھ خاص ہوجانا ہے تاکہ وہ اپنے فطری تقاضے بطریق احسن پورے کرسکیں کیونکہ اسلام دین فطرت ہے‘ اس لیے ا س میں نکاح کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے اور دوسرے ادیان کے برعکس نکاح کرنے والے کی تعریف کی گئی ہے اور نکاح نہ کرنے والے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ نکاح سنت ہے اور اس سنت کے بلاوجہ ترک کی اجازت نہیں کیونکہ اس کے ترک سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوں گی۔ علاوہ ازیں نکاح نسل انسانی کی بقا کا انتہائی مناسب طریقہ ہے۔ نکاح نہ کرنا اپنی جڑیں کاٹنے کے مترادف ہے اور یہ جرم ہے اسی لیے تمام انبیاء عؑنے نکاح کیے اور ان کی اولاد ہوئی
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص کسی دوسرے کے پیغام نکاح پر اپنا پیغام نکاح نہ بھیجے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) کسی کے پیغام پر پیغام بھیجنا اخلاق کے منافی ہے بلکہ حسد اور خود غرضی کا آئینہ دار ہے، اس لیے اسلام نے ا س سے منع فرمایا ہے۔ شریعت اسلامی کا یہ طرۂ امتیاز ہے کہ یہ فرد اور معاشرے کی اصلاح کرتی ہے، باہمی الفت اور مودت کی ترغیب اور اختلاف، دشمنی اور نفرت کا سبب بننے والی ہر چیز سے روکتی ہے۔ (2) ہاں اگر پیغام رد ہوجائے یا عورت اور اس کے ولی مزید پیغامات کے خواہش مند ہوں یا پہلے پیغام بھیجنے والا اجازت دے دے یا ایک ہی وقت میں دو تین پیغام آجائیں تو کوئی حرج نہیں، پیغام بھیجا جاسکتا ہے۔ منع تب ہے جب بات چیت چل رہی ہو اور رجحان ہوچکا ہو، پیغام قبول ہوچکا ہو یا قبولیت کے قریب ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”کوئی کسی دوسرے کے پیغام پر پیغام نہ دے۔“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اگر پیغام پر پیغام دینے والے کو پہلے پیغام سے متعلق علم ہے تو اس کا یہ پیغام دینا کسی صورت میں درست نہیں ہو گا، البتہ لاعلمی کی صورت میں معذور سمجھا جائے گا، چونکہ پیغام پر پیغام دینے سے مسلمانوں میں باہمی دشمنی اور عداوت پھیلے گی، اور اسلامی معاشرہ کو اسلام، ان عیوب سے صاف ستھرا رکھنا چاہتا ہے، اسی لیے پیغام پر پیغام دینا اسلام کی نظر میں حرام ٹھہرا تاکہ بغض و عداوت سے اسلامی معاشرہ پاک و صاف رہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar: It was narrated from Ibn 'Umar (RA) that the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "None of you should propose marriage to a woman when someone else has already proposed to her.