Sunan-nasai:
The Book of Marriage
(Chapter: What Is Disliked In The Khutbah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3279.
حضرت عدی بن حاتم ؓ بیان کرتے ہیں کہ دو آدمیوں نے نبیﷺ کی موجودگی میں خطبہ دیا۔ ان میں سے ایک نے کہا: جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا، وہ ہدایت یافتہ ہوگا۔ اور جوان دونوں کی نافرمانی کرے گا، وہ گمراہ ہوگا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”تو برا خطیب ہے۔“
تشریح:
”تو برا خطیب ہے“ آپ کا اشارہ اللہ اور اس کے رسول کو ایک ضمیر (یَعْصِھِمَا کی ھِمَا) ضمیر میں جمع کرنے کی طرف ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں اس کی صراحت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا تھا کہ اس طرح کہہ: [وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ] ”جو اللہ اور اس کے رسولﷺکی نافرمانی کرے۔“ (صحیح مسلم، الجمعة، حدیث: ۔۸۷۰) اسی طرح آپ کے ایک خطبے میں بعینہٖ یہی الفاظ ہیں: [ومنيعصِهِمافإنَّه لا يضرُّ إلّا نفسَهُ ](سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: ۱۰۹۷) نیز قرآن مجید میں ہے: ﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ﴾ میں بھی ضمیر مشترک ہے، اس کے باوجود آپ نے یہاں تثنیہ کی ضمیر لانے پر اظہار ناراضی فرمایا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وعظ تقریر کے موقع پر ابہام کی بجائے توضحیح وتفسیر کی ضرورت ہے۔ اس خطیب نے یہاں ابہام کا مظاہرہ کیا جسے آپ نے پسند فرمایا۔ ا س سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اختصار بھی اگرچہ ناجائز ہے لیکن عوام کے سامنے مختصر بات کرنے کی بجائے واضح الفاط میں بات کی جائے، اس میں کچھ طوالت ہو، تاکہ عوام کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں، مزید دیکھیے: (شرح صحیح مسلم للنووي، حدیث: ۸۷۰)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3281
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3279
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3281
تمہید کتاب
نکاح سے مراد ایک مرد اور عورت کا اپنی اور ا ولیاء کی رضا مندی سے علانیہ طور پر ایک دوسرے کے ساتھ خاص ہوجانا ہے تاکہ وہ اپنے فطری تقاضے بطریق احسن پورے کرسکیں کیونکہ اسلام دین فطرت ہے‘ اس لیے ا س میں نکاح کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے اور دوسرے ادیان کے برعکس نکاح کرنے والے کی تعریف کی گئی ہے اور نکاح نہ کرنے والے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ نکاح سنت ہے اور اس سنت کے بلاوجہ ترک کی اجازت نہیں کیونکہ اس کے ترک سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوں گی۔ علاوہ ازیں نکاح نسل انسانی کی بقا کا انتہائی مناسب طریقہ ہے۔ نکاح نہ کرنا اپنی جڑیں کاٹنے کے مترادف ہے اور یہ جرم ہے اسی لیے تمام انبیاء عؑنے نکاح کیے اور ان کی اولاد ہوئی
حضرت عدی بن حاتم ؓ بیان کرتے ہیں کہ دو آدمیوں نے نبیﷺ کی موجودگی میں خطبہ دیا۔ ان میں سے ایک نے کہا: جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا، وہ ہدایت یافتہ ہوگا۔ اور جوان دونوں کی نافرمانی کرے گا، وہ گمراہ ہوگا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”تو برا خطیب ہے۔“
حدیث حاشیہ:
”تو برا خطیب ہے“ آپ کا اشارہ اللہ اور اس کے رسول کو ایک ضمیر (یَعْصِھِمَا کی ھِمَا) ضمیر میں جمع کرنے کی طرف ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں اس کی صراحت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا تھا کہ اس طرح کہہ: [وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ] ”جو اللہ اور اس کے رسولﷺکی نافرمانی کرے۔“ (صحیح مسلم، الجمعة، حدیث: ۔۸۷۰) اسی طرح آپ کے ایک خطبے میں بعینہٖ یہی الفاظ ہیں: [ومنيعصِهِمافإنَّه لا يضرُّ إلّا نفسَهُ ](سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: ۱۰۹۷) نیز قرآن مجید میں ہے: ﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ﴾ میں بھی ضمیر مشترک ہے، اس کے باوجود آپ نے یہاں تثنیہ کی ضمیر لانے پر اظہار ناراضی فرمایا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وعظ تقریر کے موقع پر ابہام کی بجائے توضحیح وتفسیر کی ضرورت ہے۔ اس خطیب نے یہاں ابہام کا مظاہرہ کیا جسے آپ نے پسند فرمایا۔ ا س سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اختصار بھی اگرچہ ناجائز ہے لیکن عوام کے سامنے مختصر بات کرنے کی بجائے واضح الفاط میں بات کی جائے، اس میں کچھ طوالت ہو، تاکہ عوام کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں، مزید دیکھیے: (شرح صحیح مسلم للنووي، حدیث: ۸۷۰)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ دو آدمیوں نے نبی اکرم ﷺ کے سامنے (خطبہ) تشہد پڑھا، ان میں سے ایک نے کہا: «مَنْ يُطِعْ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ رَشِدَ وَمَنْ يَعْصِهِمَا فَقَدْ غَوَى» تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم بہت برے خطیب ہو۔“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : کیونکہ تم نے «ومنيعصِهِما» کہہ کر اللہ و رسول کو ایک ہی درجہ میں کر دیا۔ بہتر تھا کہ جس طرح «مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ» کہا ایسے ہی «وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ» کہتے۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی وہ ہدایت یاب ہوا اور جس نے اللہ کی اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ گمراہ ہوا۔ بعض احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود «ومنيعصِهِما» کہا ہے تو اس سلسلہ میں صحیح اور درست بات یہ ہے کہ ایسا کرنا آپ کے علاوہ کے لیے منع ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ و رسول کو ایک ہی ضمیر میں جمع کرنا اس سے دونوں کو برابری کا درجہ دینے کا وہم نہیں ہو سکتا اس لیے کہ آپ جس منصب و مقام پر فائز ہیں وہاں اس طرح کے وہم کی گنجائش ہی نہیں ۔ جب کہ دوسرے اس وہم سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Adiyy bin Hatim said: "Two men recited a Tashahhud before the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) and one of them said: 'Whoever obeys Allah and His Messenger has been guided aright and whoever disobeys them has gone astray.' The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: 'What a bad speaker you are!