Sunan-nasai:
The Book of Marriage
(Chapter: Al-Ghilah (Intercourse With A Breast-feeding Woman))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3326.
حضرت جدامہ بنت وہبؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”میرا ارادہ تھا کہ میں لوگوں کو مدت رضاعت میں جماع کرنے سے روک دوں لیکن مجھے پتہ چلا کہ فارسی اور رومی یہ کام کرتے ہیں اور اس سے ان کے (دودھ پیتے) بچوں کو کوئی نقصان نہیں ہوتا۔“
تشریح:
بچہ ابھی دودھ پیتا ہو اور حمل ٹھہر جائے تو بعض دفعہ دودھ بچے کے لیے مضر بن جاتا ہے۔ دودھ چھڑانا پڑتا ہے ورنہ بچے کو اسہال لگ جاتے ہیں۔ اگر حمل نہ ٹھہرے تو صرف جماع سے دودھ کو نقصان نہیں پہنچتا۔ چونکہ ایسی حالت میں جماع حمل کا سبب بن سکتا ہے جس سے نقصان ہوگا‘ اس لیے اس فعل (غیلہ) سے روکا بھی جاسکتا ہے جیساکہ رسول اللہﷺ کا خیال تھا مگر چونکہ اس پابندی پر عمل کرنا خاوند کے لیے تقریباً ناممکن ہے کہ وہ تقریباً دو سال تک اپنی بیوی سے جماع نہ کرے خصوصاً جبکہ بیوی بھی ایک ہو‘ اس لیے یہ پابندی مصلحت کے خلاف ہے اور لوگوں کو خوامخواہ آزمائش اور فتنے میں ڈالنے والی بات ہے‘ لہٰذا آپ نے یہ خیال چھوڑدیا۔ چنانچہ اب مدت رضاعت میں جماع کرنا جائز ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3328
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3326
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3328
تمہید کتاب
نکاح سے مراد ایک مرد اور عورت کا اپنی اور ا ولیاء کی رضا مندی سے علانیہ طور پر ایک دوسرے کے ساتھ خاص ہوجانا ہے تاکہ وہ اپنے فطری تقاضے بطریق احسن پورے کرسکیں کیونکہ اسلام دین فطرت ہے‘ اس لیے ا س میں نکاح کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے اور دوسرے ادیان کے برعکس نکاح کرنے والے کی تعریف کی گئی ہے اور نکاح نہ کرنے والے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ نکاح سنت ہے اور اس سنت کے بلاوجہ ترک کی اجازت نہیں کیونکہ اس کے ترک سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوں گی۔ علاوہ ازیں نکاح نسل انسانی کی بقا کا انتہائی مناسب طریقہ ہے۔ نکاح نہ کرنا اپنی جڑیں کاٹنے کے مترادف ہے اور یہ جرم ہے اسی لیے تمام انبیاء عؑنے نکاح کیے اور ان کی اولاد ہوئی
حضرت جدامہ بنت وہبؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”میرا ارادہ تھا کہ میں لوگوں کو مدت رضاعت میں جماع کرنے سے روک دوں لیکن مجھے پتہ چلا کہ فارسی اور رومی یہ کام کرتے ہیں اور اس سے ان کے (دودھ پیتے) بچوں کو کوئی نقصان نہیں ہوتا۔“
حدیث حاشیہ:
بچہ ابھی دودھ پیتا ہو اور حمل ٹھہر جائے تو بعض دفعہ دودھ بچے کے لیے مضر بن جاتا ہے۔ دودھ چھڑانا پڑتا ہے ورنہ بچے کو اسہال لگ جاتے ہیں۔ اگر حمل نہ ٹھہرے تو صرف جماع سے دودھ کو نقصان نہیں پہنچتا۔ چونکہ ایسی حالت میں جماع حمل کا سبب بن سکتا ہے جس سے نقصان ہوگا‘ اس لیے اس فعل (غیلہ) سے روکا بھی جاسکتا ہے جیساکہ رسول اللہﷺ کا خیال تھا مگر چونکہ اس پابندی پر عمل کرنا خاوند کے لیے تقریباً ناممکن ہے کہ وہ تقریباً دو سال تک اپنی بیوی سے جماع نہ کرے خصوصاً جبکہ بیوی بھی ایک ہو‘ اس لیے یہ پابندی مصلحت کے خلاف ہے اور لوگوں کو خوامخواہ آزمائش اور فتنے میں ڈالنے والی بات ہے‘ لہٰذا آپ نے یہ خیال چھوڑدیا۔ چنانچہ اب مدت رضاعت میں جماع کرنا جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ جدامہ بنت وہب نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میرا ارادہ ہوا کہ «غیلہ» سے روک دوں پھر مجھے خیال ہوا کہ روم و فارس کے لوگ بھی «غیلہ» کرتے ہیں اور ان کی اولاد کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔“ اسحاق (راوی) کی روایت میں «يَصْنَعُهُ» کی جگہ «يَصْنَعُونَهُ» ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : «غیلة» یعنی دودھ پلانے والی عورت سے جماع کرنا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Aishah that Judamah bint Wahb told her that the Messenger of Allah said: "I was thinking of forbidding Ghilah until I remembered that it is done by the Persians and Romans" -(one of the narrators) Ishaq said: "(They) do that -and it does not harm their children.