Sunan-nasai:
The Book of Marriage
(Chapter: Coitus Interruptus)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3327.
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ کے پاس عزل کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”وہ کیا ہوتا ہے؟“ ہم نے کہا: کسی آدمی کے نکاح میں کوئی عورت ہو‘ وہ اس سے جماع کرتا ہو لیکن حمل کو ناپسند کرتا ہو یا اس کی لونڈی ہو‘ وہ اس سے جماع کرتا ہو لیکن اس کے حاملہ ہونے کو ناپسند کرتا ہو۔ آپ نے فرمایا: ”ایسے نہ کرو تو بھی کچھ نہ ہوگا۔ اصل بات کی تقدیر کی ہے۔“
تشریح:
(1) عزل سے مراد یہ ہے کہ آدمی اپنی بیوی (یا لونڈی) سے جماع کرے مگر انزال باہر کرے۔ مقصد یہ ہے کہ حمل نہ ٹھہرے۔ (2) عزل کا جائز ہونا یا ناجائز ہونا نیت پر موقوف ہے۔ اگر نیت نیک ہو‘ مثلاً بچے (دودھ پینے والے) کی صحت متاثر ہو تو یا عورت کی صحت حمل کی اجازت نہ دیتی ہو تو عزل جائز ہے اور اگر نیت خراب ہو‘ مثلاً: میں غریب ہوں‘ بچوں کے اخراجات کہاں سے دوں گا؟ وغیرہ تو عزل ناجائز ہے۔ رسول اللہﷺ نے بھی سختی سے نہیں روکا‘ اچھا بھی نہیں سمجھا بلکہ معاملہ بین بین رکھا ہے۔ ممکن ہے وہ عزل کرہی نہ سکے۔ بے قابو ہوجائے یا قلیل انزال معلوم ہی نہ ہو۔ گویا اصل فیصلہ تو تقدیر (یعنی اللہ تعالیٰ کے فیصلے) کا ہے۔ ہاں‘ جائز مقام پر نیک نیتی کے ساتھ عزل کو بطور سبب اختیار کیا جاسکتا ہے۔ احادیث میں تطبیق بھی یہی ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3329
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3327
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3329
تمہید کتاب
نکاح سے مراد ایک مرد اور عورت کا اپنی اور ا ولیاء کی رضا مندی سے علانیہ طور پر ایک دوسرے کے ساتھ خاص ہوجانا ہے تاکہ وہ اپنے فطری تقاضے بطریق احسن پورے کرسکیں کیونکہ اسلام دین فطرت ہے‘ اس لیے ا س میں نکاح کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے اور دوسرے ادیان کے برعکس نکاح کرنے والے کی تعریف کی گئی ہے اور نکاح نہ کرنے والے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ نکاح سنت ہے اور اس سنت کے بلاوجہ ترک کی اجازت نہیں کیونکہ اس کے ترک سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوں گی۔ علاوہ ازیں نکاح نسل انسانی کی بقا کا انتہائی مناسب طریقہ ہے۔ نکاح نہ کرنا اپنی جڑیں کاٹنے کے مترادف ہے اور یہ جرم ہے اسی لیے تمام انبیاء عؑنے نکاح کیے اور ان کی اولاد ہوئی
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ کے پاس عزل کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”وہ کیا ہوتا ہے؟“ ہم نے کہا: کسی آدمی کے نکاح میں کوئی عورت ہو‘ وہ اس سے جماع کرتا ہو لیکن حمل کو ناپسند کرتا ہو یا اس کی لونڈی ہو‘ وہ اس سے جماع کرتا ہو لیکن اس کے حاملہ ہونے کو ناپسند کرتا ہو۔ آپ نے فرمایا: ”ایسے نہ کرو تو بھی کچھ نہ ہوگا۔ اصل بات کی تقدیر کی ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) عزل سے مراد یہ ہے کہ آدمی اپنی بیوی (یا لونڈی) سے جماع کرے مگر انزال باہر کرے۔ مقصد یہ ہے کہ حمل نہ ٹھہرے۔ (2) عزل کا جائز ہونا یا ناجائز ہونا نیت پر موقوف ہے۔ اگر نیت نیک ہو‘ مثلاً بچے (دودھ پینے والے) کی صحت متاثر ہو تو یا عورت کی صحت حمل کی اجازت نہ دیتی ہو تو عزل جائز ہے اور اگر نیت خراب ہو‘ مثلاً: میں غریب ہوں‘ بچوں کے اخراجات کہاں سے دوں گا؟ وغیرہ تو عزل ناجائز ہے۔ رسول اللہﷺ نے بھی سختی سے نہیں روکا‘ اچھا بھی نہیں سمجھا بلکہ معاملہ بین بین رکھا ہے۔ ممکن ہے وہ عزل کرہی نہ سکے۔ بے قابو ہوجائے یا قلیل انزال معلوم ہی نہ ہو۔ گویا اصل فیصلہ تو تقدیر (یعنی اللہ تعالیٰ کے فیصلے) کا ہے۔ ہاں‘ جائز مقام پر نیک نیتی کے ساتھ عزل کو بطور سبب اختیار کیا جاسکتا ہے۔ احادیث میں تطبیق بھی یہی ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے اس کا یعنی عزل کا ذکر ہوا، تو آپ نے فرمایا: ”یہ کیا ہے؟“ (ذرا تفصیل بتاؤ) ہم نے کہا: آدمی کے پاس بیوی ہوتی ہے، اور وہ اس سے صحبت کرتا ہے اور حمل کو ناپسند کرتا ہے، (ایسے ہی) آدمی کے پاس لونڈی ہوتی ہے وہ اس سے صحبت کرتا ہے، اور نہیں چاہتا کہ اس کو اس سے حمل رہ جائے،۲؎ آپ نے فرمایا: ”اگر تم ایسا نہ کرو تو تمہیں نقصان نہیں ہے، یہ تو صرف تقدیر کا معاملہ ہے۔“ ۳؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : «عزل» جماع کے دوران شرمگاہ سے باہر منی خارج کرنا۔ ۲؎ : اس لیے جماع کے دوران جب انزال کا وقت آتا ہے تو وہ شرمگاہ سے باہر انزال کرتا ہے تاکہ اس کی منی بچہ دانی میں داخل نہ ہو سکے کہ جس سے وہ حاملہ ہو جائے یہ کام کیسا ہے ؟۔ ۳؎ : بچے کی پیدائش یا عدم پیدائش میں عزل یا غیر عزل کا دخل نہیں بلکہ یہ تقدیر کا معاملہ ہے۔ اگر کسی بچے کی پیدائش لکھی جا چکی ہے تو تم اس کے وجود کے لیے موثر نطفے کو باہر ڈال ہی نہ سکو گے، اس کا انزال شرمگاہ کے اندر ہی ہو گا، اور وہ حمل بن کر ہی رہے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Abdur-Rahman bin Bishr bin Mas'ud, who attributed the Hadith to Abu Sa'eed Al-Khudri, that mention of that (coitus interruptus) was made to the Messenger of Allah and he said: "Why do you do that?" We said: "A man may have a wife, and he has intercourse with her, but he does not want her to get pregnant, or he may have a concubine, and he has intercourse with her, but he does not want her to get pregnant." He said: "It does not make any difference if you do that, for it is the matter of Al-Qadr.