باب: الله تعالٰی کے فرمان: {وَالْمُحْصِنٰتُ مِنَ النِّسَائِ اِلاَّ مَا مَلَکَتْ اَیْمٰنُکُمْ} کی تفسیر
)
Sunan-nasai:
The Book of Marriage
(Chapter: Meaning Of The Saying Of Allah, The Mighty And Sublime: "Also (Forbidden Are) Women Already Married. Except Those (Slaves) Whom Your Right Hands Possess.")
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3333.
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبیﷺ نے مقام اوطاس کی طرف ایک لشکر بھیجا۔ ان کا دشمن سے مقابلہ ہوا۔ لڑائی ہوئی اور وہ غالب آگئے۔ اور بہت سی ایسی قیدی عورتیں ان کے ہاتھ لگ گئیں جن کے خاوند مشرکوں میں رہ گئے تھے۔ مسلمانوں نے ان سے جماع کرنے میں گناہ محسوس کیا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ا تاری: ﴿وَالْمُحْصَنَاتُ مِنْ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ…﴾ ”اور شادی شدہ عورتوں سے بھی نکاح حرام ہے مگر وہ کافر عورتیں جو (جنگ میں) تمہارے ہاتھ لگیں۔“ یعنی ان سے جماع ونکاح حلال ہے بشرطیکہ ان کی عدت گزر جائے۔
تشریح:
(1) ”گناہ محسوس کیا“ کیونکہ وہ شادی شدہ تھیں۔ ان کے خاوند زندہ تھے۔ (2) ”تمہارے ہاتھ لگیں“ یعنی تمہاری لونڈیاں بن جائیں۔ لیکن کسی آزاد عورت کو خرید کر لونڈی نہیں بنایا جاسکتا۔ صرف جنگ میں کافر عورت قبضے میں آئے تو وہ لونڈی بن سکتی ہے۔ اگر کوئی شادی شدہ عورت پہلے سے لونڈی ہے تو اسے خریدنے سے اس کا سابقہ نکاح ختم نہیں ہوگا۔ (3) ”جماع ونکاح“ یعنی مالک کے لیے جماع اور غیر مالک کے لیے نکاح (4) ”عدت گزر جائے“ اور یہ عدت ایک حیض ہے۔ اگر حیض آجائے تو حیض ختم ہونے کے بعد جماع جائز ہے اور حیض نہ آئے تو وہ حاملہ ہوگی۔ وضع حمل تک جماع یا نکاح جائز نہیں۔ (5) یہ حدیث جمہور علماء کی دلیل ہے کہ جس طری عجمیوں کو غلام بنایا جاسکتا ہے‘ عرب مشرکین کو بھی بنایا جاسکتا ہے۔ صحابہ کرام ؓ نے ہوازن کو قیدی اور غلام بنایا تھا اور ان کی عورتوں کو لونڈیاں۔ (6) اہل کتاب کے علاوہ کفار کی خواتین کو بھی لونڈیاں بنایا جاسکتا ہے اور ان سے جماع کیا جاسکتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3335
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3333
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3335
تمہید کتاب
نکاح سے مراد ایک مرد اور عورت کا اپنی اور ا ولیاء کی رضا مندی سے علانیہ طور پر ایک دوسرے کے ساتھ خاص ہوجانا ہے تاکہ وہ اپنے فطری تقاضے بطریق احسن پورے کرسکیں کیونکہ اسلام دین فطرت ہے‘ اس لیے ا س میں نکاح کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے اور دوسرے ادیان کے برعکس نکاح کرنے والے کی تعریف کی گئی ہے اور نکاح نہ کرنے والے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ نکاح سنت ہے اور اس سنت کے بلاوجہ ترک کی اجازت نہیں کیونکہ اس کے ترک سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوں گی۔ علاوہ ازیں نکاح نسل انسانی کی بقا کا انتہائی مناسب طریقہ ہے۔ نکاح نہ کرنا اپنی جڑیں کاٹنے کے مترادف ہے اور یہ جرم ہے اسی لیے تمام انبیاء عؑنے نکاح کیے اور ان کی اولاد ہوئی
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبیﷺ نے مقام اوطاس کی طرف ایک لشکر بھیجا۔ ان کا دشمن سے مقابلہ ہوا۔ لڑائی ہوئی اور وہ غالب آگئے۔ اور بہت سی ایسی قیدی عورتیں ان کے ہاتھ لگ گئیں جن کے خاوند مشرکوں میں رہ گئے تھے۔ مسلمانوں نے ان سے جماع کرنے میں گناہ محسوس کیا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ا تاری: ﴿وَالْمُحْصَنَاتُ مِنْ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ…﴾ ”اور شادی شدہ عورتوں سے بھی نکاح حرام ہے مگر وہ کافر عورتیں جو (جنگ میں) تمہارے ہاتھ لگیں۔“ یعنی ان سے جماع ونکاح حلال ہے بشرطیکہ ان کی عدت گزر جائے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ”گناہ محسوس کیا“ کیونکہ وہ شادی شدہ تھیں۔ ان کے خاوند زندہ تھے۔ (2) ”تمہارے ہاتھ لگیں“ یعنی تمہاری لونڈیاں بن جائیں۔ لیکن کسی آزاد عورت کو خرید کر لونڈی نہیں بنایا جاسکتا۔ صرف جنگ میں کافر عورت قبضے میں آئے تو وہ لونڈی بن سکتی ہے۔ اگر کوئی شادی شدہ عورت پہلے سے لونڈی ہے تو اسے خریدنے سے اس کا سابقہ نکاح ختم نہیں ہوگا۔ (3) ”جماع ونکاح“ یعنی مالک کے لیے جماع اور غیر مالک کے لیے نکاح (4) ”عدت گزر جائے“ اور یہ عدت ایک حیض ہے۔ اگر حیض آجائے تو حیض ختم ہونے کے بعد جماع جائز ہے اور حیض نہ آئے تو وہ حاملہ ہوگی۔ وضع حمل تک جماع یا نکاح جائز نہیں۔ (5) یہ حدیث جمہور علماء کی دلیل ہے کہ جس طری عجمیوں کو غلام بنایا جاسکتا ہے‘ عرب مشرکین کو بھی بنایا جاسکتا ہے۔ صحابہ کرام ؓ نے ہوازن کو قیدی اور غلام بنایا تھا اور ان کی عورتوں کو لونڈیاں۔ (6) اہل کتاب کے علاوہ کفار کی خواتین کو بھی لونڈیاں بنایا جاسکتا ہے اور ان سے جماع کیا جاسکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک لشکر اوطاس کی طرف بھیجا۱؎ وہاں ان کی دشمن سے مڈ بھیڑ ہو گئی، اور انہوں نے دشمن کا بڑا خون خرابہ کیا، اور ان پر غالب آ گئے، انہیں ایسی عورتیں ہاتھ آئیں جن کے شوہر مشرکین میں رہ گئے تھے، چنانچہ مسلمانوں نے ان قیدی باندیوں سے صحبت کرنا مناسب نہ سمجھا، تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی: «وَالْمُحْصَنَاتُ مِنْ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ» ”اور (حرام کی گئیں) شوہر والی عورتیں مگر وہ جو تمہاری ملکیت میں آ جائیں۔“ (النساء: ۲۴) یعنی یہ عورتیں تمہارے لیے حلال ہیں جب ان کی عدت پوری ہو جائے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : ”اوطاس“ طائف میں ایک جگہ کا نام ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Sa'eed Al-Khudri that the Prophet of Allah sent an army to Awtas. They met the enemy, fought them, and prevailed over them. They acquired female prisoners who had husbands among the idolaters. The Muslims felt reluctant to be intimate with them. Then Allah, the Mighty and Sublime revealed: "Also (forbidden are) women already married, except those (slaves) whom your right hands possess," meaning, this is permissible for you once they have completed their 'Iddah.