Sunan-nasai:
The Book of Marriage
(Chapter: Explanation Of Ash-Shighar)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3337.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے نکاح شغار سے منع فرمایا ہے۔ اور نکاح شغار یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے شحص سے اپنی بیٹی کا نکاح کردے اس شرط پر کہ وہ بھی اپنی بیٹی کا نکاح اس سے کردے گا اور ان دونوں نکاحوں میں کوئی مہر نہ ہو۔
تشریح:
(1) ”شغار یہ ہے“ شغار کی یہ تفسیر اگرچہ خود رسول اللہﷺ یا کسی صحابی سے منقول نہیں بلکہ یہ حضرت ابن عمر کے شاگرد حضرت نافع سے منقول ہے‘ تاہم اس تفسیر سے نکاح شغار کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ موجودہ وٹہ سٹہ شغار کی ذیل میں نہیں آتا کیونکہ ان میں الگ الگ مہر مقرر ہوتا ہے‘ تاہم جہالت کی وجہ سے وٹہ سٹہ کی شادی کے نتائج بالعموم بہت غلط نکلتے ہیں‘ اس لیے اس سے اجتناب ہی بہتر ہے۔ (2) سنن ابوداود میں ایک واقعہ منقول ہے کہ دوشخصوں نے ایک دوسرے کی بیٹی سے نکاح کیا‘ اس کے بعد اس میں الفاظ ہیں: [وكاناجعَلا صداقًا] ”اور ان دونوں نے حق مہر بھی مقرر کیاتھا۔“(سنن ابي داود: النكاح‘ حدیث: ۲۰۷۵) اس کے باوجود اس راویت میں ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت مروان (اپنے گورنر) کو لکھا ہے کہ وہ ان دونوں کے درمیان تفریق کرا دیں کیونکہ یہ وہی شعار ہے جس سے رسول اللہﷺ نے منع فرمایا ہے۔ اس روایت کی بنیاد پر بعض علماء نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ حق مہر ہو‘ تب بھی اس طرح کا مشروط نکاح (جس میں ایک دوسرے کی بیٹی یا نکاح کی شرط ہو) باطل ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ سنن ابو داود کی یہ روایت صحیح ابن حبان (الإحسان بترتیب صحیح ابن حبان: ۶/ ۱۸۰‘ وموارد الظمآن: ۴/۱۹۶) میں [وَقَدْ کَانَا جَعَلاَہُ صَدَاقاً] کے الفاظ کے ساتھ آئی ہے‘ یعنی اس میں جعل کا مفعول اول بھی مذکور ہے۔ اس عبارت کی رُو سے معنیٰ بنتے ہیں کہ ان دونوں نے اس مشروط نکاح ہی کو حق مہر بنا دیا تھا۔ اس ضمیر کے ساتھ اس روایت کے معنیٰ بالکل صحیح ہوجاتے ہیں اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے تفریق کرانے کی معقول وجہ بھی سامنے آجاتی ہے کہ یہ نکاح ممنوعہ شغار کا مصداق تھا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا حکم تفریق بھی اس امر کا قرینہ ہے کہ یہاں ضمیر مفعول اول محذوف ہے اور روایت کے الفاظ [جَعَلاَہُ ] ہی ہیں‘ نہ کہ [جَعَلا ] (ضمیرمفعول کے بغیر) کیونکہ حق مہر کی ادائیگی کے باوجود حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا اس نکاح کو باطل قراردینا ناقابل فہم ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3339
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3337
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3339
تمہید کتاب
نکاح سے مراد ایک مرد اور عورت کا اپنی اور ا ولیاء کی رضا مندی سے علانیہ طور پر ایک دوسرے کے ساتھ خاص ہوجانا ہے تاکہ وہ اپنے فطری تقاضے بطریق احسن پورے کرسکیں کیونکہ اسلام دین فطرت ہے‘ اس لیے ا س میں نکاح کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے اور دوسرے ادیان کے برعکس نکاح کرنے والے کی تعریف کی گئی ہے اور نکاح نہ کرنے والے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ نکاح سنت ہے اور اس سنت کے بلاوجہ ترک کی اجازت نہیں کیونکہ اس کے ترک سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوں گی۔ علاوہ ازیں نکاح نسل انسانی کی بقا کا انتہائی مناسب طریقہ ہے۔ نکاح نہ کرنا اپنی جڑیں کاٹنے کے مترادف ہے اور یہ جرم ہے اسی لیے تمام انبیاء عؑنے نکاح کیے اور ان کی اولاد ہوئی
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے نکاح شغار سے منع فرمایا ہے۔ اور نکاح شغار یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے شحص سے اپنی بیٹی کا نکاح کردے اس شرط پر کہ وہ بھی اپنی بیٹی کا نکاح اس سے کردے گا اور ان دونوں نکاحوں میں کوئی مہر نہ ہو۔
حدیث حاشیہ:
(1) ”شغار یہ ہے“ شغار کی یہ تفسیر اگرچہ خود رسول اللہﷺ یا کسی صحابی سے منقول نہیں بلکہ یہ حضرت ابن عمر کے شاگرد حضرت نافع سے منقول ہے‘ تاہم اس تفسیر سے نکاح شغار کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ موجودہ وٹہ سٹہ شغار کی ذیل میں نہیں آتا کیونکہ ان میں الگ الگ مہر مقرر ہوتا ہے‘ تاہم جہالت کی وجہ سے وٹہ سٹہ کی شادی کے نتائج بالعموم بہت غلط نکلتے ہیں‘ اس لیے اس سے اجتناب ہی بہتر ہے۔ (2) سنن ابوداود میں ایک واقعہ منقول ہے کہ دوشخصوں نے ایک دوسرے کی بیٹی سے نکاح کیا‘ اس کے بعد اس میں الفاظ ہیں: [وكاناجعَلا صداقًا] ”اور ان دونوں نے حق مہر بھی مقرر کیاتھا۔“(سنن ابي داود: النكاح‘ حدیث: ۲۰۷۵) اس کے باوجود اس راویت میں ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت مروان (اپنے گورنر) کو لکھا ہے کہ وہ ان دونوں کے درمیان تفریق کرا دیں کیونکہ یہ وہی شعار ہے جس سے رسول اللہﷺ نے منع فرمایا ہے۔ اس روایت کی بنیاد پر بعض علماء نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ حق مہر ہو‘ تب بھی اس طرح کا مشروط نکاح (جس میں ایک دوسرے کی بیٹی یا نکاح کی شرط ہو) باطل ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ سنن ابو داود کی یہ روایت صحیح ابن حبان (الإحسان بترتیب صحیح ابن حبان: ۶/ ۱۸۰‘ وموارد الظمآن: ۴/۱۹۶) میں [وَقَدْ کَانَا جَعَلاَہُ صَدَاقاً] کے الفاظ کے ساتھ آئی ہے‘ یعنی اس میں جعل کا مفعول اول بھی مذکور ہے۔ اس عبارت کی رُو سے معنیٰ بنتے ہیں کہ ان دونوں نے اس مشروط نکاح ہی کو حق مہر بنا دیا تھا۔ اس ضمیر کے ساتھ اس روایت کے معنیٰ بالکل صحیح ہوجاتے ہیں اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے تفریق کرانے کی معقول وجہ بھی سامنے آجاتی ہے کہ یہ نکاح ممنوعہ شغار کا مصداق تھا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا حکم تفریق بھی اس امر کا قرینہ ہے کہ یہاں ضمیر مفعول اول محذوف ہے اور روایت کے الفاظ [جَعَلاَہُ ] ہی ہیں‘ نہ کہ [جَعَلا ] (ضمیرمفعول کے بغیر) کیونکہ حق مہر کی ادائیگی کے باوجود حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا اس نکاح کو باطل قراردینا ناقابل فہم ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نکاح شغار سے منع فرمایا ہے، اور شغار یہ ہے کہ آدمی دوسرے شخص سے اپنی بیٹی کی شادی اس شرط پر کرے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح اس شخص کے ساتھ کرے۔ اور دونوں ہی بیٹیوں کا کوئی مہر مقرر نہ ہو۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn 'Umar that the Messenger of Allah forbade Ash-Shighar. Ash-Shighar means when a man marries his daughter to another man, on the condition that that man marries his daughter to him, and no dowry is exchanged between them.