Sunan-nasai:
The Book of Marriage
(Chapter: Marriage For Islam)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3340.
حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ حضرت ابوطلحہ ؓ نے (میری والدہ) حضرت ام سلیم ؓ سے نکاح کیا تو ان دونوں کے درمیان (ابو طلحہ کا) اسلام لانا ہی حق مہر قرار پایا۔ (دراصل) ام سلیم ؓ حضرت ابوطلحہ سے پہلے مسلمان ہوگئی تھیں۔ حضرت ابوطلحہ نے انہیں نکاح کا پیغام بھیجا تو وہ کہنے لگی: میں تو مسلمان ہوچکی ہوں اگر تم بھی مسلمان ہوجاؤ تو میں تم سے نکاح کرلوں گی۔ تب وہ مسلمان ہوگئے۔ چنانچہ وہی (ان کا مسلمان ہونا ہی) ان دونوں کے درمیان حق مہر مقرر ہوا۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو طلحہ کے اسلام کے علاوہ کوئی اور چیز مہر نہ تھی۔ آئندہ روایت اس کی مزید صراحت کرتی ہے‘ لہٰذا کوئی بھی منفعت مہر بن سکتی ہے‘ دینی ہو یا دنیوی۔ جس طرح سابقہ حدیث میں تعلیم قرآن کا ذکر ہے اور یہی بات صحیح ہے۔ مگر موالک واحناف مہر کے لیے ”مال“ ہونا ضروری سمجھتے ہیں کیونکہ قرآن مجید میں ہے: ﴿أَنْ تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُمْ﴾(النساء: ۴:۲۴) لہٰذا وہ ایسی احادیث کی تاویل کرتے ہیں کہ وقتی طور پر ان چیزوں کو کافی سمجھ لیا گیا ورنہ اصل مہر بعد میں واجب الادا ہوتا تھا۔ یا یہ چیزیں نکاح کا سبب تھیں نہ کہ مہر‘ لیکن احادیث کے صریح الفاظ اس تاویل کو قبول نہیں کرتے‘ اس لیے ضروری ہے کہ مجبوری یا عورت کی رضا مندی کے وقت ”غیر مال“ کو بھی مہر مانا جائے تاکہ قرآن مجید کے ساتھ ساتھ احادیث پر بھی عمل ہو۔ قرآن مجید میں گویا عام صورت بیان کی گئی ہے نہ کہ مال کو شرط قراردیا گیا ہے کیونکہ احادیث‘ قرآن سمجھنے کے لیے بہترین بلکہ ضروری ہے۔ رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام ؓ قرآن مجید کے اولین مخاطب تھے اور وہ قرآن مجید ہم سب سے زیادہ سمجھتے تھے۔ (2) حضرت ام سلیمؓ کے پہلے خاوند حضرت مالک انصاری تھے جو حضرت انس رضی اللہ عنہ کے والد تھے۔ ان کی وفات کے بعد مندرجہ بالا صورت حال پیش آئی۔ اور یہ رسول اللہﷺ کے مدینہ منورہ تشریف لانے سے کچھ عرصہ پہلے کا واقعہ ہے جب مدینہ منورہ میں حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ جیسے مبلغین کی کوششوں سے اسلام پھیل رہا تھا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3342
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3340
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3342
تمہید کتاب
نکاح سے مراد ایک مرد اور عورت کا اپنی اور ا ولیاء کی رضا مندی سے علانیہ طور پر ایک دوسرے کے ساتھ خاص ہوجانا ہے تاکہ وہ اپنے فطری تقاضے بطریق احسن پورے کرسکیں کیونکہ اسلام دین فطرت ہے‘ اس لیے ا س میں نکاح کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے اور دوسرے ادیان کے برعکس نکاح کرنے والے کی تعریف کی گئی ہے اور نکاح نہ کرنے والے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ نکاح سنت ہے اور اس سنت کے بلاوجہ ترک کی اجازت نہیں کیونکہ اس کے ترک سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوں گی۔ علاوہ ازیں نکاح نسل انسانی کی بقا کا انتہائی مناسب طریقہ ہے۔ نکاح نہ کرنا اپنی جڑیں کاٹنے کے مترادف ہے اور یہ جرم ہے اسی لیے تمام انبیاء عؑنے نکاح کیے اور ان کی اولاد ہوئی
حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ حضرت ابوطلحہ ؓ نے (میری والدہ) حضرت ام سلیم ؓ سے نکاح کیا تو ان دونوں کے درمیان (ابو طلحہ کا) اسلام لانا ہی حق مہر قرار پایا۔ (دراصل) ام سلیم ؓ حضرت ابوطلحہ سے پہلے مسلمان ہوگئی تھیں۔ حضرت ابوطلحہ نے انہیں نکاح کا پیغام بھیجا تو وہ کہنے لگی: میں تو مسلمان ہوچکی ہوں اگر تم بھی مسلمان ہوجاؤ تو میں تم سے نکاح کرلوں گی۔ تب وہ مسلمان ہوگئے۔ چنانچہ وہی (ان کا مسلمان ہونا ہی) ان دونوں کے درمیان حق مہر مقرر ہوا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو طلحہ کے اسلام کے علاوہ کوئی اور چیز مہر نہ تھی۔ آئندہ روایت اس کی مزید صراحت کرتی ہے‘ لہٰذا کوئی بھی منفعت مہر بن سکتی ہے‘ دینی ہو یا دنیوی۔ جس طرح سابقہ حدیث میں تعلیم قرآن کا ذکر ہے اور یہی بات صحیح ہے۔ مگر موالک واحناف مہر کے لیے ”مال“ ہونا ضروری سمجھتے ہیں کیونکہ قرآن مجید میں ہے: ﴿أَنْ تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُمْ﴾(النساء: ۴:۲۴) لہٰذا وہ ایسی احادیث کی تاویل کرتے ہیں کہ وقتی طور پر ان چیزوں کو کافی سمجھ لیا گیا ورنہ اصل مہر بعد میں واجب الادا ہوتا تھا۔ یا یہ چیزیں نکاح کا سبب تھیں نہ کہ مہر‘ لیکن احادیث کے صریح الفاظ اس تاویل کو قبول نہیں کرتے‘ اس لیے ضروری ہے کہ مجبوری یا عورت کی رضا مندی کے وقت ”غیر مال“ کو بھی مہر مانا جائے تاکہ قرآن مجید کے ساتھ ساتھ احادیث پر بھی عمل ہو۔ قرآن مجید میں گویا عام صورت بیان کی گئی ہے نہ کہ مال کو شرط قراردیا گیا ہے کیونکہ احادیث‘ قرآن سمجھنے کے لیے بہترین بلکہ ضروری ہے۔ رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام ؓ قرآن مجید کے اولین مخاطب تھے اور وہ قرآن مجید ہم سب سے زیادہ سمجھتے تھے۔ (2) حضرت ام سلیمؓ کے پہلے خاوند حضرت مالک انصاری تھے جو حضرت انس رضی اللہ عنہ کے والد تھے۔ ان کی وفات کے بعد مندرجہ بالا صورت حال پیش آئی۔ اور یہ رسول اللہﷺ کے مدینہ منورہ تشریف لانے سے کچھ عرصہ پہلے کا واقعہ ہے جب مدینہ منورہ میں حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ جیسے مبلغین کی کوششوں سے اسلام پھیل رہا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ابوطلحہ ؓ نے ام سلیم ؓ سے نکاح کیا، تو ان کے درمیان مہر (ابوطلحہ کا) اسلام قبول کر لینا طے پایا تھا، ام سلیم ابوطلحہ سے پہلے ایمان لائیں، ابوطلحہ نے انہیں شادی کا پیغام دیا، تو انہوں نے کہا: میں اسلام لے آئی ہوں (میں غیر مسلم سے شادی نہیں کر سکتی)، آپ اگر اسلام قبول کر لیں تو میں آپ سے شادی کر سکتی ہوں، تو انہوں نے اسلام قبول کر لیا، اور یہی اسلام ان دونوں کے درمیان مہر قرار پایا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Anas said: "Abu Talhah married Umm Sulaim and the dowry between them was Islam. Umm Sulaim became Muslim before Abu Talhah, and he proposed to her but she said: 'I have become Muslim; if you become Muslim I will marry you.' So he became Muslim, and that was the dowry between them.