Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: Concession Allowing That)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3403.
حضرت فاطمہ بنت قیسؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: میں آل خالد میں سے ایک عورت ہوں۔ میرے خاوند نے مجھے (آخری) طلاق بھیج دی ہے۔ میں نے خاوند کے گھر والوں سے اپنے لیے رہائش اور اخراجات طلب کیے تو انہوں نے انکار کردیا ہے۔ انہوں (خاوند کے گھر والوں) نے جواب دیا: اے اللہ کے رسول! اس کے خاوند نے اسے تین طلاقیں بھیج دی ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”اخراجات ورہائش تو اس (مطلقہ) عورت کو ملتے ہیں جس کے خاوند کو اس سے رجوع کا حق ہے۔“
تشریح:
یہ روایت اس سے پہلے بھی مختلف مقامات پر آچکی ہے۔ کسی میں ہے: مجھے تین طلاقیں دیں۔ کسی میں ہے: مجھے بتہ طلاق دی۔ کسی میں ہے: مجھے تین طلاقوں میں سے آخری طلاق دی‘ لہٰذا اس روایت سے تین طلاقیں اکٹھی دینے پر استدلال درست نہیں کیونکہ روایات کو ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ دراصل خاوند نے تیسری طلاق بھیجی تھی۔ دو طلاقیں وہ پہلے دے چکا تھا‘ اس لیے ظاہراً اس روایت کا باب سے کوئی تعلق نہیں۔ ”اخراجات ورہائش“ کا مسئلہ حدیث:۳۲۲۴ میں تفصیل سے بیان ہوچکا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3405
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3403
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3432
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت فاطمہ بنت قیسؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: میں آل خالد میں سے ایک عورت ہوں۔ میرے خاوند نے مجھے (آخری) طلاق بھیج دی ہے۔ میں نے خاوند کے گھر والوں سے اپنے لیے رہائش اور اخراجات طلب کیے تو انہوں نے انکار کردیا ہے۔ انہوں (خاوند کے گھر والوں) نے جواب دیا: اے اللہ کے رسول! اس کے خاوند نے اسے تین طلاقیں بھیج دی ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”اخراجات ورہائش تو اس (مطلقہ) عورت کو ملتے ہیں جس کے خاوند کو اس سے رجوع کا حق ہے۔“
حدیث حاشیہ:
یہ روایت اس سے پہلے بھی مختلف مقامات پر آچکی ہے۔ کسی میں ہے: مجھے تین طلاقیں دیں۔ کسی میں ہے: مجھے بتہ طلاق دی۔ کسی میں ہے: مجھے تین طلاقوں میں سے آخری طلاق دی‘ لہٰذا اس روایت سے تین طلاقیں اکٹھی دینے پر استدلال درست نہیں کیونکہ روایات کو ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ دراصل خاوند نے تیسری طلاق بھیجی تھی۔ دو طلاقیں وہ پہلے دے چکا تھا‘ اس لیے ظاہراً اس روایت کا باب سے کوئی تعلق نہیں۔ ”اخراجات ورہائش“ کا مسئلہ حدیث:۳۲۲۴ میں تفصیل سے بیان ہوچکا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی اور آپ سے کہا: میں آل خالد کی بیٹی ہوں اور میرے شوہر فلاں نے مجھے طلاق کہلا بھیجی ہے، میں نے ان کے گھر والوں سے نفقہ و سکنی (اخراجات اور رہائش) کا مطالبہ کیا تو انہوں نے مجھے دینے سے انکار کیا، ان لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ان کے شوہر نے انہیں تین طلاقیں دے بھیجی ہیں، وہ کہتی ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”نفقہ و سکنی اس عورت کو ملتا ہے جس کے شوہر کو اس سے رجوع کا حق حاصل ہوتا ہے۔“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اور تین طلاق کے بعد رجوع نہیں کر سکتا اس لیے عورت کو نفقہ و سکنیٰ بھی نہیں ملے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Fatimah bint Qais said: "I came to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) and said: 'I am the daughter of Aali Khalid and my husband, so and so, sent word to me divorcing me. I asked his family for provision and shelter but they refused.' They said: 'O Messenger of Allah, he sent word to her divorcing her thrice.'" She said: "The Messenger of Allah said: 'The woman is still entitled to provision and shelter if the husband can still take her back.