باب: عورت کے ساتھ شب بسری سے پہلے اسے تین طلاقیں دینا
)
Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: Three Separate Divorces Before Consummation Of The Marriage)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3406.
حضرت طاوس سے منقول ہے کہ حضرت ابوصہباء حضرت ابن عباس ؓ کے پاس آئے اور کہا: اے ابن عباس! کیا آپ جاتنے کہ بیک وقت تین طلاقیں رسول اللہﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کے دور مبارک میں‘ نیز حضرت عمر ؓ کے ابتدائی دور میں‘ ایک طلاق سمجھی جاتی تھیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔
تشریح:
اس حدیث میں دخول سے پہلے یا بعد کی کوئی قید نہیں۔ دراصل امام صاحب نے اس روایت کو جمہور اہل علم کے موقف کے موافق کرنے کے لیے یہ تاویل کی ہے کہ اس حدیث میں اس عورت کی تین طلاقیں مراد ہیں جس سے جماع نہ کیا گیا ہو۔ اس عورت کے لیے تین اور ایک برابر ہیں کیونکہ ایسی عورت جس سے جماع نہ کیا گیا ہو‘ اس کے لیے ایک طلاق بھی بائن ہوتی ہے‘ یعنی اس سے رجوع نہیں ہوسکتا۔ لیکن اگر حدیث کو اچھی طرح پڑھا جائے تو یہ تاویل غلط ثابت ہوتی ہے کیونکہ یہ مسئلہ تو شروع سے ہمیشہ کے لیے یہی رہا ہے اور اب بھی ایسے ہی ہے کیونکہ یہ قرآنی حکم ہے۔ اس کے لیے حضرت عمر کے ابتدائی دور کی قید لگانے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ اس حدیث سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ تین طلاقیں بیک وقت دی جائیں تو وہ ایک طلاق شمار ہوں گی۔ عورت مدخول بہا ہو یا غیر مدخول بہا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں بطور سزا تین کو تین ہی نافذ کردیا۔ ان کے فرمان کی وجہ سے عموماً صحابہ وتابعین نے یہی فتویٰ دینا شروع کردیا حتیٰ کہ اس حدیث کو روای صحابی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی فتویٰ دینے لگے جس سے لوگوں نے اس روایت کو مشکوک سمجھ لیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ سیاسی اور انتظامی اور تعزیری فیصلہ تھا۔ جس طرح انتظامی فیصلے بدلتے رہتے ہیں‘ یہ بھی بدل سکتا ہے۔ ہر دور میں کچھ نہ کچھ لوگ اس کی صراحت کرتے رہے ہیں کہ شرعی مسئلہ یہی ہے کہ ایک وقت کی تین طلاقیں ایک شمار ہوں گی۔ صحابہ میں سے حضرت علی‘ حضرت ابن مسعود‘ حضرت زبیر‘ حضرت عبدالرحمن بن عوفf‘ تابعین میں سے حضرت طاوس اور عکرمہ اسی کے قائل ہیں۔ امام ا لمغازی محمد بن اسحاق‘ شیخ الاسلام ابن قیم اور علامہ ابن حزم کا مسلک بھی یہی ہے بلکہ امام مالک سے بھی ایک قول یہی نقل کیا گیا ہے۔ مالکیہ میں سے بہت سے فقہاء اور حنفیہ میں سے محمد بن مقاتل رازی بھی یہی کہتے ہیں۔ اب اسے شاذ مسلک کہنا ائمہ اربعہ کے لحاظ سے ہے ورنہ ہر دور میں لوگ اس کے قائل رہے ہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے‘ حدیث:۳۴۳۰ مزید دیکھیے: ”ایک مجلس میں تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل“ از حافظ صلاح الدین یوسف)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط البخاري. وأخرجه مسلم. وصححه
الحاكم على شرط الشيخين، ووافقه الذهبي. وزاد مسلم في رواية: فقال عمر
ابن الخطاب: إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة؛ فلو
أمضيناه عليهم، فأمضاه عليهم) .
إسناده: حدثنا أحمد بن صالح: ثنا عبد الرزاق: أخبرنا ابن جريج: أخبرني
ابن طاوس عن أبيه.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ غير أحمد بن صالح، فهو
على شرط البخاري، وقد توبع كما يأتي..
والحديث أخرجه الدارقطني (ص 445) ، والبيهقي (7/336) من طريق
المصنف.
وأخرجه الطحاوي في "شرح المعاني " (2/31) : حدثنا رَوْح بن الفَرَجِ قال: ثنا
أحمد بن صالح... به.
وهو في "مصنف عبد الرزاق " (11337) .
ومن طريقه: أخرجه أحمد (1/314) ، ومسلم (4/184) ، والدارقطني (ص
444) ، والحاكم (2/196) كلهم من طرق أخرى عن عبد الرزاق... به. وقال
الحاكم:
" صحيح على شرط الشيخين "؛ ووافقه الذهبي. وقد وهما في قولهما:
" ولم يخرجاه "! فقد أخرجه مسلم.
وتابعه جماعة عن ابن جريج... به.
أخرجه مسلم والنسائي (2/96) ، والدارقطني.
________________________________________
وتابعه معمر قال: أخبرني ابن طاوس... به: أخرجه عبد الرزاق (11336) ،
ومن طريقه مسلم والطحاوي والدارقطني والبيهقي؛ وزادوا:
فقال عمر بن الخطاب: إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة؛
فلوا أمضيناه عليهم! فأمضاه عليهم.
وتابعه إبراهيم بن ميسرة عن طاوس... به. أخرجه مسلم وابن أبي شيبة
(7/26) ، والدارقطني والبيهقي من طرق ثلاث عن حماد بن زيد عن أيوب
السَّخْتِيَاني عنه... به.
وخالفهم أبو النعمان عن حماد بن زيد... به، فقال: عن غير واحد عن
طاوس... به؛ وزاد في متنه:
قبل أن يدخل بها!
وهي زيادة منكرة، كما شرحته في "الضعيفة " (1134) ؛ ولذلك أوردته في
الكتاب الآخر (378) .
وتابعه عمرو بن دينار أن طاوساً أخبره... به: أخرجه عبد الرزاق (11338)
عن عمر بن حوشب عنه.
وتابعه ابن أبي مليكة قال: سأل أبو الجوزاء ابن عباس: هل علمت...
الحديث.
أخرجه الدارقطني والحاكم، وقال:
" صحيح الإسناد "! من طريق عبد الله بن المؤمل عنه. وقال الدارقطني:
" هو ضعيف، ولم يروه عن ابن أبي مليكة غيره ". وقال الذهبي في تعقبه
على الحاكم:
________________________________________
" قلت: ابن المؤمل ضعفوه ".
وروى هشام بن حُجَيْر عن طاوس قال: قال عمر بن الخطاب رضي الله عنه:
قد كان لكم في الطلاق أناة؛ فاستعجلتم أناتكم، وقد أجزنا عليكم ما
استعجلتم من ذلك.
أخرجه سعيد بن منصور في "سننه " (3/259) .
وإسناده إلى طاوس حسن.
ثم روى عن الحسن في الرجل يطلق امرأته ثلاثاً بكلمة واحدة، فقال: قال
عمر:
لو حملناهم على كتاب الله، ثم قال: لا، بل نلزمهم ما ألزموا أنفسهم.
ورجاله ثقات، لكن الحسن- وهو البصري- لم يسمع من عمر بن الخطاب.
ومن طريق أخرى عنه:
أن عمر بن الخطاب كتب إلى أبي موسى الأشعري: لقد هممت أن أجعل
- إذا طلق الرجل امرأته ثلاثاً في مجلس- أن أجعلها واحدة، ولكن أقواماً جعلوا
على أنفسهم، فأُلزِمُ كل نفس ما ألزم نفسه! من قال لامرأته: أنت عليَّ حرام؛
فهي حرام، ومن قال لامرأته: أنت بائنة؛ فهي بائنة، ومن قال: أنت طالق ثلاثاً؛
فهي ثلاث.
وإسناده إلى الحسن صحيح.
قلت: وهذه الطرق تشهد لزيادة معمر- عند مسلم وغيره- المتقدمة، وهي
صريحة في أن عمر رضي الله عنه إنما نفذها عليهم ثلاثاً باجتهاد من عنده؛ وإلا لم
يكن ليحكم قبل ذلك بخلاف ذلك، ولا تردد أو تساءل في تنفيذها ثلاثاً.
وقد فصل القول فرب المسألة شيخ الإسلام ابن تيمية في "الفتاوى"، وتلميذه
ابن القيم في "إعلام الموقعين " وغيره، وأثبتا أن الحديث محكم، لم ينسخه شيء؛
فمن شاء البسط فليرجع إليهما.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3408
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3406
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3435
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت طاوس سے منقول ہے کہ حضرت ابوصہباء حضرت ابن عباس ؓ کے پاس آئے اور کہا: اے ابن عباس! کیا آپ جاتنے کہ بیک وقت تین طلاقیں رسول اللہﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کے دور مبارک میں‘ نیز حضرت عمر ؓ کے ابتدائی دور میں‘ ایک طلاق سمجھی جاتی تھیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں دخول سے پہلے یا بعد کی کوئی قید نہیں۔ دراصل امام صاحب نے اس روایت کو جمہور اہل علم کے موقف کے موافق کرنے کے لیے یہ تاویل کی ہے کہ اس حدیث میں اس عورت کی تین طلاقیں مراد ہیں جس سے جماع نہ کیا گیا ہو۔ اس عورت کے لیے تین اور ایک برابر ہیں کیونکہ ایسی عورت جس سے جماع نہ کیا گیا ہو‘ اس کے لیے ایک طلاق بھی بائن ہوتی ہے‘ یعنی اس سے رجوع نہیں ہوسکتا۔ لیکن اگر حدیث کو اچھی طرح پڑھا جائے تو یہ تاویل غلط ثابت ہوتی ہے کیونکہ یہ مسئلہ تو شروع سے ہمیشہ کے لیے یہی رہا ہے اور اب بھی ایسے ہی ہے کیونکہ یہ قرآنی حکم ہے۔ اس کے لیے حضرت عمر کے ابتدائی دور کی قید لگانے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ اس حدیث سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ تین طلاقیں بیک وقت دی جائیں تو وہ ایک طلاق شمار ہوں گی۔ عورت مدخول بہا ہو یا غیر مدخول بہا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں بطور سزا تین کو تین ہی نافذ کردیا۔ ان کے فرمان کی وجہ سے عموماً صحابہ وتابعین نے یہی فتویٰ دینا شروع کردیا حتیٰ کہ اس حدیث کو روای صحابی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی فتویٰ دینے لگے جس سے لوگوں نے اس روایت کو مشکوک سمجھ لیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ سیاسی اور انتظامی اور تعزیری فیصلہ تھا۔ جس طرح انتظامی فیصلے بدلتے رہتے ہیں‘ یہ بھی بدل سکتا ہے۔ ہر دور میں کچھ نہ کچھ لوگ اس کی صراحت کرتے رہے ہیں کہ شرعی مسئلہ یہی ہے کہ ایک وقت کی تین طلاقیں ایک شمار ہوں گی۔ صحابہ میں سے حضرت علی‘ حضرت ابن مسعود‘ حضرت زبیر‘ حضرت عبدالرحمن بن عوفf‘ تابعین میں سے حضرت طاوس اور عکرمہ اسی کے قائل ہیں۔ امام ا لمغازی محمد بن اسحاق‘ شیخ الاسلام ابن قیم اور علامہ ابن حزم کا مسلک بھی یہی ہے بلکہ امام مالک سے بھی ایک قول یہی نقل کیا گیا ہے۔ مالکیہ میں سے بہت سے فقہاء اور حنفیہ میں سے محمد بن مقاتل رازی بھی یہی کہتے ہیں۔ اب اسے شاذ مسلک کہنا ائمہ اربعہ کے لحاظ سے ہے ورنہ ہر دور میں لوگ اس کے قائل رہے ہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے‘ حدیث:۳۴۳۰ مزید دیکھیے: ”ایک مجلس میں تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل“ از حافظ صلاح الدین یوسف)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
طاؤس سے روایت ہے کہ ابو الصہباء نے ابن عباس ؓ کے پاس آ کر کہا: اے ابن عباس! کیا آپ نہیں جانتے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں، ابوبکر ؓ کے زمانے میں اور عمر ؓ کے شروع عہد خلافت میں تین طلاقیں (ایک ساتھ) ایک مانی جاتی تھیں، انہوں نے کہا: جی ہاں (معلوم ہے، ایسا ہوتا تھا)۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس حدیث کا عنوان باب سے تعلق اس طرح ہے کہ اس حدیث میں جو یہ کہا گیا ہے کہ «إن الثلاث كانت ... ترو إلى الواحدة» تو یہ اس مطلقہ کے بارے میں خاص ہے جسے جماع سے پہلے طلاق دے دی گئی ہو ، جب «غیر مدخول بہا» کو تین متفرق طلاقیں دی جائیں گی تو پہلی طلاق واقع ہو جائے گی اور دوسری اور تیسری طلاقیں بے محل ہونے کی وجہ سے لغو قرار پائیں ۔ اس چیز کو بتانے کے لیے امام نسائی نے یہ عنوان قائم کیا ہے اور اس کے تحت مذکورہ حدیث ذکر کی ہے ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn Tawus, from his father, that Abu As-Sahba' came to Ibn 'Abbas and said: "O Ibn 'Abbas! Did you not know that the threefold divorce during the time of the Messenger of Allah and Abu Bakr (RA), and during the early part of 'Umar's Caliphate, used to be counted as one divorce?" He said: "Yes.