باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان: ’’اے نبی! آپ وہ چیز کیوں حرام کرتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے حلال کیا ہے؟ کی تفسیر
)
Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: Meaning Of The Saying Of Allah, The Mighty And Sublime: "O Prophet! Why Do You Forbid (For Yourself))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3420.
حضرت ابن عباس ؓ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: میں نے اپنی بیوی کو اپنے اوپر حرام کرلیا ہے۔ آپ نے فرمایا: تو نے جھوٹ کہا ہے۔ وہ تجھ پر حرام نہیں‘ پھر یہ آیت تلاوت فرمائی: ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ﴾ ”اے نبی! آپ اس چیز کو کیوں حرام کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے حلال کی ہے؟“ ہاں تجھ پر سخت ترین کفارہ ہوگا‘ یعنی ایک غلام آزاد کرنا۔
تشریح:
(1) ”تونے جھوٹ کہا“ یعنی تیرا اپنی بیوی کو اپنے لیے حرام کہنا جھوٹ اور غلط بات ہے کیونکہ بیوی کیسے حرام ہوسکتی ہے؟ ہاں طلاق کی نیت سے کہے تو الگ بات ہے۔ (2) ”تجھ پر سخت ترین کفارہ ہوگا“ کیونکہ تو نے انتہائی قبیح بات کہی۔ بیوی تو حرام نہیں ہوگی مگر اس قبیح بات کی سزا تجھے برداشت کرنا ہوگی۔ (دیکھیے‘ حدیث: ۳۴۱۱) (3) ”ایک غلام آزاد کرنا“ قرآن مجید کے علاوہ مسکینوں کا کھانا یا لباس یا روزے بھی آتے ہیں۔ ممکن ہے یہ شخص امر ہو‘ اس لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس کے لیے سختی ضروری سمجھی اور غلام آزاد کرنے کا کہا ہو۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3422
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3420
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3449
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت ابن عباس ؓ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: میں نے اپنی بیوی کو اپنے اوپر حرام کرلیا ہے۔ آپ نے فرمایا: تو نے جھوٹ کہا ہے۔ وہ تجھ پر حرام نہیں‘ پھر یہ آیت تلاوت فرمائی: ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ﴾ ”اے نبی! آپ اس چیز کو کیوں حرام کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے حلال کی ہے؟“ ہاں تجھ پر سخت ترین کفارہ ہوگا‘ یعنی ایک غلام آزاد کرنا۔
حدیث حاشیہ:
(1) ”تونے جھوٹ کہا“ یعنی تیرا اپنی بیوی کو اپنے لیے حرام کہنا جھوٹ اور غلط بات ہے کیونکہ بیوی کیسے حرام ہوسکتی ہے؟ ہاں طلاق کی نیت سے کہے تو الگ بات ہے۔ (2) ”تجھ پر سخت ترین کفارہ ہوگا“ کیونکہ تو نے انتہائی قبیح بات کہی۔ بیوی تو حرام نہیں ہوگی مگر اس قبیح بات کی سزا تجھے برداشت کرنا ہوگی۔ (دیکھیے‘ حدیث: ۳۴۱۱) (3) ”ایک غلام آزاد کرنا“ قرآن مجید کے علاوہ مسکینوں کا کھانا یا لباس یا روزے بھی آتے ہیں۔ ممکن ہے یہ شخص امر ہو‘ اس لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس کے لیے سختی ضروری سمجھی اور غلام آزاد کرنے کا کہا ہو۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا اور کہا: میں نے اپنی بیوی کو اپنے اوپر حرام کر لیا ہے، تو انہوں نے اس سے کہا: تم غلط کہتے ہو وہ تم پر حرام نہیں ہے، پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی «يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ» اور (کہ) تم پر سخت ترین کفارہ ایک غلام آزاد کرنا ہے۔ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : سخت ترین کفارہ کا ذکر اس لیے کیا تاکہ لوگ ایسے عمل سے باز رہیں ورنہ ظاہر قرآن سے کفارہ یمین کا ثبوت ملتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn 'Abbas said: "A man came to him and said: 'I have made my wife forbidden to myself.' He said: 'You are lying, she is not forbidden to you.' Then he recited this Verse: 'O Prophet! Why do you forbid (for yourself) that which Allah has allowed to you.' (And he said): 'You have to offer the severest form of expiation: Freeing a slave.