Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: The One Who Utters A Divorce To Himself (Without Uttering The Words Loudly))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3435.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے میری امت کو وسوسے اور دلی خیالات معاف کردیے ہیں جب تک وہ ان پر عمل نہ کریں یا زبان پر نہ لائیں۔“
تشریح:
(1) جن باتوں کا تعلق ہی دل سے ہے‘ مثلاً اعتقادات‘ ایمان اور کفر وغیرہ‘ ان پر مؤاخذہ یا ثواب ہوگا‘ خواہ وہ دل ہی میں رہیں۔ یہاں صرف وسوسے اور خیالات مراد ہیں جو وقتی طور پر دل میں آتے ہیں اور نکل جاتے ہیں‘ نہ کہ ایمان وکفر ونفاق وغیرہ جو دل میں جاگزیں ہوتے ہیں۔ (2) یہ امت محمدیہ کا خاصہ ہے۔ باقی امتوں پر اس کا بھی محاسبہ ہوتا تھا۔ اس سے امت محمدیہ کی فضیلت معلوم ہوتی ہے۔ عَلٰی صَاحِبِھَا الصَّلاَةُ وَالتَّسْلِیْمُ۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3437
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3435
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3464
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے میری امت کو وسوسے اور دلی خیالات معاف کردیے ہیں جب تک وہ ان پر عمل نہ کریں یا زبان پر نہ لائیں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) جن باتوں کا تعلق ہی دل سے ہے‘ مثلاً اعتقادات‘ ایمان اور کفر وغیرہ‘ ان پر مؤاخذہ یا ثواب ہوگا‘ خواہ وہ دل ہی میں رہیں۔ یہاں صرف وسوسے اور خیالات مراد ہیں جو وقتی طور پر دل میں آتے ہیں اور نکل جاتے ہیں‘ نہ کہ ایمان وکفر ونفاق وغیرہ جو دل میں جاگزیں ہوتے ہیں۔ (2) یہ امت محمدیہ کا خاصہ ہے۔ باقی امتوں پر اس کا بھی محاسبہ ہوتا تھا۔ اس سے امت محمدیہ کی فضیلت معلوم ہوتی ہے۔ عَلٰی صَاحِبِھَا الصَّلاَةُ وَالتَّسْلِیْمُ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ عزوجل نے ہماری امت کے وسوسوں اور جی میں گزرنے والے خیالات سے درگزرفرما دیا ہے جب تک کہ اسے زبان سے نہ کہیں یا اس پہ عمل نہ کریں۔“
حدیث حاشیہ:
w
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Hurairah said: "The Messenger of Allah said: 'Allah, the Mighty and Sublime, has forgiven my Ummah for what is whispered to them or what enters their minds, so long as they do not act upon it or speak of it.'"