باب: لونڈی کو (آزادی کے بعد نکاح ختم کرنے) کا اختیار ہے
)
Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: Giving A Slave Woman The Choice)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3448.
نبیﷺ کی زوجۂ محترمہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت بریرہ ؓ کے بارے میں تین شرعی احکام جاری ہوئے: ایک یہ کہ وہ آزاد ہوئی تو اسے اپنے خاوند کی بابت اختیار دیا گیا۔ دوسرا یہ کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”حق ولا اسے حاصل ہوگا جو آزاد کرے۔“ تیسرا یہ کہ رسول اللہﷺ تشریف لائے تو ہنڈیا میں گوشت پک رہا تھا لیکن آپ کو روٹی کے ساتھ گھر والا سالن دیا گیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”میں نے تو ہنڈیا میں گوشت پکتا ہوا دیکھا تھا۔“ گھر والوں نے کہا: جی ہاں! اے اللہ کے رسول! لیکن وہ تو گوشت تھا جو بریرہ پر صدقہ کیا گیا تھا اور آپ صدقہ نہیں کھاتے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”یہ اس کے لیے صدقہ تھا (لیکن جب اس نے ہمیں تحفہ بھیج دیا تو یہ) ہمارے لیے ہدیہ ہے۔“
تشریح:
(1) ”اختیار دیا گیا“ کیونکہ ان کا خاوند ”مغیث“ ابھی غلام تھا۔ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہ نے نکاح ختم کردیا تھا۔ معلوم ہوا عورت کے آزاد ہونے سے طلاق واقع ہوگی نہ فسخ نکاح ہوگا بلکہ اختیار ملے گا۔ (2) ”حق ولا“ سے مراد ہو حق ہے جو آزاد کرنے والے کو آزاد شدہ غلام پر ہوتا ہے کہ اسے اس کا مولیٰ کہا جاتا ہے۔ اور یہ آزاد شدہ غلام فوت ہوجائے اور اس کا کوئی نسبی وارث نہ ہو تو آزاد کرنے والا اس کا وارث بھی بنے گا۔ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنی آزادی کے لیے حضرت عائشہؓ سے رابطہ کیا تو انہوں نے فرمایا: میں تمہیں یک مشت خرید کر آزاد کردیتی ہوں۔ مالک بیچنے پر تو راضی ہوگئے مگر ”حق ولا“ اپنے لیے مانگنے لگے‘ حالانکہ یہ حق تو اسی کا ہے جو غلام کو لوجہ اللہ آزاد کرے۔ (3) ”ہدیہ ہے“ اس سے یہ اصول سمجھ میں آیا کہ جو چیز بذات خود پلید اور حرام نہیں‘ ا س کی حیثیت بدلتی رہتی ہے‘ مثلاً: رشوت یا سود کا پیسہ اس شخص کے لیے حرام ہے جو رشوت یا سود لے رہا ہے‘ لیکن اگر رشوت یا سود لینے والا وہ رقم آگے کسی کو بطور اجرت یا قیمت دے تو لینے والے کے لیے جائز ہوگی‘ حرام نہیں ہوگی کیونکہ رقم بذات خود پلید یا حرام نہیں بلکہ اس کی حیثیت اسے حلال یا حرام بناتی ہے۔ زکاۃ کی رقم مال دار کے لیے حرام مگر فقیر کے لیے حلال ہے۔ یہ اصول بہت اہم ہے۔ (4) میاں بیوی غلام ہوں تو کسی ایک سے مکاتبت کر کے اسے آزاد کیا جاسکتا ہے۔ ضمناً یہ بات بھی سمجھ میں آئی کہ کسی ایک کو آگے بیچا جاسکتا ہے۔ (5) اگر کسی غلط اور غیر شرعی کام کاج لوگ ارتکاب کررہے ہوں تو علماء کو مسئلے کی وضاحت کرنی چاہیے اور اس کے متعلق شرعی احکام نمایاں کرنے چاہئیں‘ نیز جس شرعی کام اور رسم کا وہ مستقبل میں ارتکاب کرنے والے ہوں اس کے بارے میں بروقت اپنے خطبے میں وضاحت کردینی چاہیے۔ (6) نیک بیوی ہر معاملے میں اپنے خاوند کی خیر خواہ ہوتی ہے۔ حضرت عائشہؓ نے آپ کو گوشت کا سالن نہ دیا کیونکہ انہیں علم تھا کہ آپ صدقے کی چیز نہیں کھاتے‘ ورنہ آپ کو علم نہ تھا کیونکہ آپ عالم غیب نہ تھے۔ (7) صدقے اور ہدیے میں فرق ہے۔ (8) آزاد کرنے والا آزاد کردہ سے تحفہ قبول کرسکتا ہے۔ اس سے آزاد کرنے کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3450
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3448
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3477
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
نبیﷺ کی زوجۂ محترمہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت بریرہ ؓ کے بارے میں تین شرعی احکام جاری ہوئے: ایک یہ کہ وہ آزاد ہوئی تو اسے اپنے خاوند کی بابت اختیار دیا گیا۔ دوسرا یہ کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”حق ولا اسے حاصل ہوگا جو آزاد کرے۔“ تیسرا یہ کہ رسول اللہﷺ تشریف لائے تو ہنڈیا میں گوشت پک رہا تھا لیکن آپ کو روٹی کے ساتھ گھر والا سالن دیا گیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”میں نے تو ہنڈیا میں گوشت پکتا ہوا دیکھا تھا۔“ گھر والوں نے کہا: جی ہاں! اے اللہ کے رسول! لیکن وہ تو گوشت تھا جو بریرہ پر صدقہ کیا گیا تھا اور آپ صدقہ نہیں کھاتے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”یہ اس کے لیے صدقہ تھا (لیکن جب اس نے ہمیں تحفہ بھیج دیا تو یہ) ہمارے لیے ہدیہ ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”اختیار دیا گیا“ کیونکہ ان کا خاوند ”مغیث“ ابھی غلام تھا۔ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہ نے نکاح ختم کردیا تھا۔ معلوم ہوا عورت کے آزاد ہونے سے طلاق واقع ہوگی نہ فسخ نکاح ہوگا بلکہ اختیار ملے گا۔ (2) ”حق ولا“ سے مراد ہو حق ہے جو آزاد کرنے والے کو آزاد شدہ غلام پر ہوتا ہے کہ اسے اس کا مولیٰ کہا جاتا ہے۔ اور یہ آزاد شدہ غلام فوت ہوجائے اور اس کا کوئی نسبی وارث نہ ہو تو آزاد کرنے والا اس کا وارث بھی بنے گا۔ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنی آزادی کے لیے حضرت عائشہؓ سے رابطہ کیا تو انہوں نے فرمایا: میں تمہیں یک مشت خرید کر آزاد کردیتی ہوں۔ مالک بیچنے پر تو راضی ہوگئے مگر ”حق ولا“ اپنے لیے مانگنے لگے‘ حالانکہ یہ حق تو اسی کا ہے جو غلام کو لوجہ اللہ آزاد کرے۔ (3) ”ہدیہ ہے“ اس سے یہ اصول سمجھ میں آیا کہ جو چیز بذات خود پلید اور حرام نہیں‘ ا س کی حیثیت بدلتی رہتی ہے‘ مثلاً: رشوت یا سود کا پیسہ اس شخص کے لیے حرام ہے جو رشوت یا سود لے رہا ہے‘ لیکن اگر رشوت یا سود لینے والا وہ رقم آگے کسی کو بطور اجرت یا قیمت دے تو لینے والے کے لیے جائز ہوگی‘ حرام نہیں ہوگی کیونکہ رقم بذات خود پلید یا حرام نہیں بلکہ اس کی حیثیت اسے حلال یا حرام بناتی ہے۔ زکاۃ کی رقم مال دار کے لیے حرام مگر فقیر کے لیے حلال ہے۔ یہ اصول بہت اہم ہے۔ (4) میاں بیوی غلام ہوں تو کسی ایک سے مکاتبت کر کے اسے آزاد کیا جاسکتا ہے۔ ضمناً یہ بات بھی سمجھ میں آئی کہ کسی ایک کو آگے بیچا جاسکتا ہے۔ (5) اگر کسی غلط اور غیر شرعی کام کاج لوگ ارتکاب کررہے ہوں تو علماء کو مسئلے کی وضاحت کرنی چاہیے اور اس کے متعلق شرعی احکام نمایاں کرنے چاہئیں‘ نیز جس شرعی کام اور رسم کا وہ مستقبل میں ارتکاب کرنے والے ہوں اس کے بارے میں بروقت اپنے خطبے میں وضاحت کردینی چاہیے۔ (6) نیک بیوی ہر معاملے میں اپنے خاوند کی خیر خواہ ہوتی ہے۔ حضرت عائشہؓ نے آپ کو گوشت کا سالن نہ دیا کیونکہ انہیں علم تھا کہ آپ صدقے کی چیز نہیں کھاتے‘ ورنہ آپ کو علم نہ تھا کیونکہ آپ عالم غیب نہ تھے۔ (7) صدقے اور ہدیے میں فرق ہے۔ (8) آزاد کرنے والا آزاد کردہ سے تحفہ قبول کرسکتا ہے۔ اس سے آزاد کرنے کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ ؓ سے تین سنتیں تھیں،۱؎ ایک یہ کہ وہ لونڈی تھیں آزاد کی گئیں، (آزادی کے باعث) انہیں ان کے شوہر کے سلسلہ میں اختیار دیا گیا (اپنے غلام شوہر کے ساتھ رہنے یا علیحدگی اختیار کر لینے کا) اور (دوسری سنت یہ کہ) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ولاء (میراث) آزاد کرنے والے کا حق ہے“، اور (تیسری سنت یہ کہ) رسول اللہ ﷺ (ان کے) گھر گئے (اس وقت ان کے یہاں) ہنڈیا میں گوشت پک رہا تھا، آپ کے سامنے روٹی اور گھر کے سالنوں میں سے ایک سالن پیش کیا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کیا میں نے گوشت کی ہنڈیا نہیں دیکھی ہے؟“ (تو پھر گوشت کیوں نہیں لائے؟) لوگوں نے عرض کیا: ہاں، اللہ کے رسول! (آپ نے صحیح دیکھا ہے) لیکن یہ گوشت وہ ہے جو بریرہ ؓ کو صدقہ میں ملا ہے اور آپ صدقہ نہیں کھاتے (اس لیے آپ کے سامنے گوشت نہیں رکھا گیا ہے)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ اس کے لیے صدقہ ہے لیکن (جب تم اسے مجھے پیش کرو گے تو) وہ میرے لیے ہدیہ ہو گا (اس لیے اسے پیش کر سکتے ہو)۔“ ۳؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی بریرہ رضی الله عنہا کے سبب تین سنتیں وجود میں آئیں۔ ۲؎ : ولاء اس میراث کو کہتے ہیں جو آزاد کردہ غلام یا عقد موالاۃ کی وجہ سے حاصل ہو۔ ۳؎ : معلوم ہوا کہ کسی چیز کی ملکیت مختلف ہو جائے تو اس کا حکم بھی مختلف ہو جاتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Aishah said: "Three judgments were established because of Barirah. Her masters wanted to sell her but they stipulated that Al-Wala should still be to them. I mentioned that to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) and he said: 'Buy her and set her free, for Al-Wala, is to the one who sets the slave free.' She was set free and the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) gave her the choice, and she chose herself. And she used to be given charity and she would give some of it as a gift to us. I mentioned that to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) and he said: 'Eat it for it is charity for her and a gift for us.