باب: لونڈی کو (آزادی کے بعد نکاح ختم کرنے) کا اختیار ہے
)
Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: Giving A Slave Woman The Choice)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3449.
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت بریرہ ؓ کے بارے میں تین اہم فیصلے ہوئے: اس کے مالکوں نے اسے بیچنے کا ارادہ کیا لیکن ولا کی شرط لگائی۔ میں نے یہ بات رسول اللہ ﷺ سے ذکر کی تو آپ نے فرمایا: ”اسے خرید لے اور آزاد کردے۔ ولا تو اسی کے لیے ہے جو آزاد کرے۔“ وہ آزاد ہوئی تو رسول اللہﷺ نے اسے اختیار دیا۔ چنانچہ اس نے (خاوند کے بجائے) اپنے آپ کو پسند کیا۔ اس پر صدقہ کیا جاتا تھا تو وہ اس میں سے ہمیں تحفتاً بھیج دیتی تھی۔ میں نے یہ بات نبیﷺ سے ذکر کی تو آپ نے فرمایا: ”کھاؤ یہ اس کے لیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے تحفہ۔“
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3451
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3449
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3478
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت بریرہ ؓ کے بارے میں تین اہم فیصلے ہوئے: اس کے مالکوں نے اسے بیچنے کا ارادہ کیا لیکن ولا کی شرط لگائی۔ میں نے یہ بات رسول اللہ ﷺ سے ذکر کی تو آپ نے فرمایا: ”اسے خرید لے اور آزاد کردے۔ ولا تو اسی کے لیے ہے جو آزاد کرے۔“ وہ آزاد ہوئی تو رسول اللہﷺ نے اسے اختیار دیا۔ چنانچہ اس نے (خاوند کے بجائے) اپنے آپ کو پسند کیا۔ اس پر صدقہ کیا جاتا تھا تو وہ اس میں سے ہمیں تحفتاً بھیج دیتی تھی۔ میں نے یہ بات نبیﷺ سے ذکر کی تو آپ نے فرمایا: ”کھاؤ یہ اس کے لیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے تحفہ۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ ؓ کی ذات سے تین قضیے (مسئلے) سامنے آئے: بریرہ ؓ کے مالکان نے ان کو بیچ دینا اور ان کی ولاء (وراثت) کا شرط لگانا چاہا، میں نے اس کا تذکرہ نبی اکرم ﷺ سے کیا، تو آپ نے فرمایا: ”(ان کے شرط لگانے سے کچھ نہیں ہو گا) تم اسے خرید لو اور اسے آزاد کر دو، ولاء (میراث) اس کا حق ہے جو اسے آزاد کرے“، اور وہ (خرید کر) آزاد کر دی گئی تو رسول اللہ ﷺ نے اسے اختیار دیا تو اس نے اپنے آپ کو منتخب کر لیا (یعنی اپنے شوہر سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا)، اسے صدقہ دیا جاتا تھا تو اس صدقہ میں ملی ہوئی چیز میں سے ہمیں ہدیہ بھیجا کرتی تھی، میں نے یہ بات نبی اکرم ﷺ کو بتائی تو آپ نے فرمایا: ”اسے کھاؤ وہ (چیز) اس کے لیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے ہدیہ ہے۔“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اور ہدیہ قبول کرنا ہمارے لیے جائز ہے ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Aishah said: "I bought Barirah and her masters stipulated that her Wala' should go to them. I mentioned that to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) and he said: 'Set her free, and Al-Wala' is to the one who pays the silver.' So I set her free and the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) called her and gave her the choice concerning her husband. She said: 'Even if you gave me such and such, I would not stay with him,' so she chose herself and her husband was a free man.