باب: لونڈی آزاد ہوجائے تو اور اس کا خاوند پہلے سے آزاد ہوتو کیا اسے اختیا ہوگا؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: Giving The Choice To A Slave Woman Who Is Set Free And Whose Husband Is A Free Man)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3450.
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے بریرہ کو خریدا لیکن اس کے مالکوں نے ولا کی شرط لگالی۔ میں نے یہ بات نبیﷺ سے ذکر کی تو آپ نے فرمایا: ”تو اسے آزاد کردے۔ ولا اسی شخص کے لیے ہے جو پیسے دے کر خریدتا ہے۔“ چنانچہ میں نے اسے آزاد کردیا۔ رسول اللہﷺ نے اسے بلایا اور اسے اپنے خاوند (کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے) کی بابت اختیار دیا۔ وہ کہنے لگی: وہ مجھے بہت بڑی دولت دے تب بھی میں اس کے نکاح میں رہنے کے لیے تیار نہیں‘ چنانچہ اس نے اپنی علیحدگی کو پسند کرلیا اور اس کا خاوند آزاد تھا۔
تشریح:
(1) ”جو خریدتا ہے“ یعنی خریدنے کے بعد اسے آزاد بھی کرتا ہے ورنہ صرف خریدنے سے حق ولا نہیں ملتا۔ (2) ”اس کا خاوند آزاد تھا“ یہ حضرت عائشہؓ کے الفاظ نہیں بلکہ حضرت اسود کے ہیں جو کہ تابعی ہیں اور وہ موقع پر موجود نہیں تھے جب کہ حضرت عائشہؓ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس کے غلام ہونے کی صراحت آتی ہے۔ یہ دونوں موقع کے گواہ ہیں۔ ظاپر ہے ان کی گواہی معتبر ہے۔ حضرت اسود کو غلطی لگی ہے۔ احناف کہہ دیتے ہیں کہ پہلے وہ غلام تھا‘ پھر بریرہ کی آزادی سے پہلے وہ آزاد ہو گیا تھا لیکن یہ تاویل صحیح نہیں کیونکہ حضرت عائشہ وحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بریرہ اور اس کی آزادی کے وقت کی بات کر رہے ہیں۔ ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس واقعے کے بعد وہ بھی آزاد ہوگیا تھا۔ اس میں کوئی اشکال نہیں۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3452
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3450
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3479
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے بریرہ کو خریدا لیکن اس کے مالکوں نے ولا کی شرط لگالی۔ میں نے یہ بات نبیﷺ سے ذکر کی تو آپ نے فرمایا: ”تو اسے آزاد کردے۔ ولا اسی شخص کے لیے ہے جو پیسے دے کر خریدتا ہے۔“ چنانچہ میں نے اسے آزاد کردیا۔ رسول اللہﷺ نے اسے بلایا اور اسے اپنے خاوند (کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے) کی بابت اختیار دیا۔ وہ کہنے لگی: وہ مجھے بہت بڑی دولت دے تب بھی میں اس کے نکاح میں رہنے کے لیے تیار نہیں‘ چنانچہ اس نے اپنی علیحدگی کو پسند کرلیا اور اس کا خاوند آزاد تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) ”جو خریدتا ہے“ یعنی خریدنے کے بعد اسے آزاد بھی کرتا ہے ورنہ صرف خریدنے سے حق ولا نہیں ملتا۔ (2) ”اس کا خاوند آزاد تھا“ یہ حضرت عائشہؓ کے الفاظ نہیں بلکہ حضرت اسود کے ہیں جو کہ تابعی ہیں اور وہ موقع پر موجود نہیں تھے جب کہ حضرت عائشہؓ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس کے غلام ہونے کی صراحت آتی ہے۔ یہ دونوں موقع کے گواہ ہیں۔ ظاپر ہے ان کی گواہی معتبر ہے۔ حضرت اسود کو غلطی لگی ہے۔ احناف کہہ دیتے ہیں کہ پہلے وہ غلام تھا‘ پھر بریرہ کی آزادی سے پہلے وہ آزاد ہو گیا تھا لیکن یہ تاویل صحیح نہیں کیونکہ حضرت عائشہ وحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بریرہ اور اس کی آزادی کے وقت کی بات کر رہے ہیں۔ ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس واقعے کے بعد وہ بھی آزاد ہوگیا تھا۔ اس میں کوئی اشکال نہیں۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے بریرہ ؓ کو خریدا تو اس کے (بیچنے والے) مالکان نے اس کی ولاء (وراثت) کی شرط لگائی (کہ اس کے مرنے کا ترکہ ہم پائیں گے)، میں نے اس بات کا ذکر نبی اکرم ﷺ سے کیا، تو آپ نے فرمایا: ”تم اسے آزاد کر دو کیونکہ ولاء (میراث) اس شخص کا حق ہوتا ہے جو پیسہ خرچ کرے (یعنی لونڈی یا غلام خرید کر آزاد کرے)، چنانچہ میں نے اسے آزاد کر دیا پھر (میرے آزاد کر دینے کے بعد) رسول اللہ ﷺ نے اسے بلایا اور اسے اپنے شوہر کے ساتھ رہنے یا علیحدگی اختیار کر لینے کا اختیار دیا۔ اس نے کہا: اگر وہ مجھے اتنا اتنا دیں تب بھی میں ان کے پاس نہیں رہوں گی، اس نے اپنے حق خود اختیاری کا استعمال کیا (اور علیحدگی ہو گئی)، اس کا شوہر آزاد شخص تھا۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : عائشہ رضی الله عنہا سے ایک دوسری حدیث رقم (۳۴۸۱) میں بریرہ رضی الله عنہا کے شوہر سے متعلق آیا ہے «وکان عبدا» یعنی وہ آزاد نہیں بلکہ غلام تھے، اسی طرح ابن عباس کی حدیث میں بھی ہے کہ وہ غلام تھے۔ اس لیے اس سلسلہ میں مناسب اور معقول توجیہ یہ ہے کہ وہ غلام تھے پھر آزاد کر دئے گئے، جن کو ان کی آزادی کی اطلاع نہیں ملی انہوں نے اصل کی بنیاد پر انہیں عبد کہا، ممکن ہے عائشہ رضی الله عنہا کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہو۔ صحیح روایات کی موجودگی کہ بریرہ رضی الله عنہا کے شوہر آزاد تھے، اس حدیث میں یہ ذکر کرنا کہ وہ آزاد تھے شاذ اور ضعیف ہے اس لیے کہ یہ ثقات کی روایت کے خلاف ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Aishah that she wanted to buy Barirah, but her masters stipulated that her Wala' should go to them. She mentioned that to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) and he said: "Buy her and set her free, for Al-Wala' is to the one who sets the slave free." Some meat was brought and it was said: "This is some of that which was given in charity to Barirah." He said: "It is charity for her and a gift for us." And the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) gave her the choice, and her husband was a free man.