Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: What Was Narrated Concerning Khul')
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3462.
۔حضرت حبیبہ بنت سہلؓ سے روایت ہے کہ وہ حضرت ثابت بن قیس بن شماس کے نکاح تھی۔ رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز کے لیے نکلے تو حبیبہ بنت سہل کو اندھیرے میں اپنے دروازے کے پاس کھڑے پایا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”کون ہے۔؟“ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں حبیبہ بنت سہل ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”تم کیسے؟“ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نہیں اور ثابت بن قیس نہیں۔ اپنے شوہر کے متعلق کہا۔ (مطلب یہ تھا کہ اب میں اور میرا خاوند ثابت بن قیس اکٹھے نہیں رہ سکتے)۔ جب حضرت ثابت بن قیس آئے تو رسول اللہﷺ نے ان سے کہا: ”یہ حبیبہ بنت سہل (آئی) ہے اور اللہ تعالیٰ کو جو کچھ منظور تھا اس نے (مجھ سے) بیان کیا۔“ حبیبہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! انہوں نے جو کچھ (حق مہر) مجھے دیا تھا‘ میرے پاس موجود ہے۔ رسول اللہﷺ نے ثابت سے کہا: ”اپنا مال اس سے واپس لے لے۔“ چنانچہ انہوں نے واپس لے لیا اور حبیبہ اپنے گھر والوں کے ہاں (میکے میں) بیٹھ رہی۔
تشریح:
(1) عورت کا خاوند سے طلاق طلب کرنا خلع کہلاتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر خاوند چاہے تو بیوی کو دیے ہوئے مہر یا دیگر عطیات کی واپسی کا مطالبہ کرسکتا ہے‘ البتہ اس سے زائد عورت کا ذاتی مال نہیں لے سکتا۔ مصالحت کے بعد خاوند طلاق دے دے گا جس کے بعد رجوع نہیں ہوسکے گا‘ البتہ اگر وہ دونوں چاہیں تو عدت کے بعد نکاح ہوسکتا ہے۔ (2) خلع کی ظاہری صورت اگرچہ طلاق کے مشابہ ہے کہ عورت کے مطالبے پر خاوند طلاق دیتا ہے‘ تاہم خلع حقیقت میں فسخ نکاح ہے‘ اس لیے اس کی عدت تین حیض نہیں بلکہ ایک حیض ہے۔ اس کا مقصد اسبراءے رحم ہے‘ یعنی یہ معلوم ہوسکے کہ کہیں عورت امید سے تو نہیں۔ اگر حیض آگیا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ حاملہ نہیں‘ لہٰذا وہ آگے نکاح کر سکتی ہے۔ اگر حیض نہیں آئے گا تو اسکا مطلب ہے کہ وہ حمل سے ہے۔ اس صورت میں وہ بچے کی ولادت تک آگے نکاح نہیں کرسکتی۔ دیکھیے: (حدیث:۳۵۲۷،۳۵۲۸) احناف کے نزدیک خلع طلاق ہے‘ اس لیے اس کی عدت تین حیض ہے لیکن یہ موقف درست نہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح، وصححه ابن الجارود وابن حبان) .
إسناده: حدثنا القعنبي عن مالك عن يحيى بن سعيد عن عمرة بنت
عبد الرحمن بن سعد بن زرارة أنها أخبرته عن حبيبة بنت سهيل الأنصارية.
قلت: وهذا إسناد صحيح؛ إن كانت عمرة سمعته من حبيبة؛ فقد أشار
الحافظ في ترجمتها من "التهذيب " إلى أنه اختلف عليها في إسناده.
قلت: فرواه مالك عن يحيى... هكذا.
وخالفه هشيم؛ فقال سعيد بن منصور (1430) : حدثنا هشيم: أنا يحيى بن
سعيد... به؛ إلا أنه قال:
أن حبيبة بنت سهل كانت تحت... الحديث.
فهذا مرسل.
ثم قال (1431) : حدثنا سفيان عن يحيى... به؛ إلا أنه قال: عن عمرة
قالت:
جاءت حبيبة...
وهذا أصرح في الإرسال.
لكن للحديث شواهد يتقوى بها؛ منها: حديث عائشة بعده.
وحديث ابن عباس نحوه: عند البخاري وغيره. وكلها مخرجة في "الإرواء"
(2036) .
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3464
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3462
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3492
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
۔حضرت حبیبہ بنت سہلؓ سے روایت ہے کہ وہ حضرت ثابت بن قیس بن شماس کے نکاح تھی۔ رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز کے لیے نکلے تو حبیبہ بنت سہل کو اندھیرے میں اپنے دروازے کے پاس کھڑے پایا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”کون ہے۔؟“ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں حبیبہ بنت سہل ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”تم کیسے؟“ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نہیں اور ثابت بن قیس نہیں۔ اپنے شوہر کے متعلق کہا۔ (مطلب یہ تھا کہ اب میں اور میرا خاوند ثابت بن قیس اکٹھے نہیں رہ سکتے)۔ جب حضرت ثابت بن قیس آئے تو رسول اللہﷺ نے ان سے کہا: ”یہ حبیبہ بنت سہل (آئی) ہے اور اللہ تعالیٰ کو جو کچھ منظور تھا اس نے (مجھ سے) بیان کیا۔“ حبیبہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! انہوں نے جو کچھ (حق مہر) مجھے دیا تھا‘ میرے پاس موجود ہے۔ رسول اللہﷺ نے ثابت سے کہا: ”اپنا مال اس سے واپس لے لے۔“ چنانچہ انہوں نے واپس لے لیا اور حبیبہ اپنے گھر والوں کے ہاں (میکے میں) بیٹھ رہی۔
حدیث حاشیہ:
(1) عورت کا خاوند سے طلاق طلب کرنا خلع کہلاتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر خاوند چاہے تو بیوی کو دیے ہوئے مہر یا دیگر عطیات کی واپسی کا مطالبہ کرسکتا ہے‘ البتہ اس سے زائد عورت کا ذاتی مال نہیں لے سکتا۔ مصالحت کے بعد خاوند طلاق دے دے گا جس کے بعد رجوع نہیں ہوسکے گا‘ البتہ اگر وہ دونوں چاہیں تو عدت کے بعد نکاح ہوسکتا ہے۔ (2) خلع کی ظاہری صورت اگرچہ طلاق کے مشابہ ہے کہ عورت کے مطالبے پر خاوند طلاق دیتا ہے‘ تاہم خلع حقیقت میں فسخ نکاح ہے‘ اس لیے اس کی عدت تین حیض نہیں بلکہ ایک حیض ہے۔ اس کا مقصد اسبراءے رحم ہے‘ یعنی یہ معلوم ہوسکے کہ کہیں عورت امید سے تو نہیں۔ اگر حیض آگیا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ حاملہ نہیں‘ لہٰذا وہ آگے نکاح کر سکتی ہے۔ اگر حیض نہیں آئے گا تو اسکا مطلب ہے کہ وہ حمل سے ہے۔ اس صورت میں وہ بچے کی ولادت تک آگے نکاح نہیں کرسکتی۔ دیکھیے: (حدیث:۳۵۲۷،۳۵۲۸) احناف کے نزدیک خلع طلاق ہے‘ اس لیے اس کی عدت تین حیض ہے لیکن یہ موقف درست نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حبیبہ بنت سہل رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ وہ ثابت بن قیس بن شماس کی بیوی تھیں، ایک دن رسول اللہ ﷺ (نماز کے لیے) صبح صادق میں نکلے تو ان کو اپنے دروازے پر تاریکی میں کھڑا ہوا پایا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”کون ہے یہ؟“ تو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں حبیبہ بنت سہل ہوں، آپ نے فرمایا: ”کیا بات ہے، کیسے آنا ہوا؟“ انہوں نے کہا: نہ میں اور نہ ثابت بن قیس (یعنی دونوں بحیثیت میاں بیوی ایک ساتھ نہیں رہ سکتے، آپ ہم میں علیحدگی کرا دیجئیے) پھر جب ثابت بن قیس بھی آ گئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”یہ حبیبہ بنت سہل ہیں، اللہ کوان سے جو کہلانا تھا وہ انہوں نے کہا“ حبیبہ ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! انہوں نے جو کچھ مجھے دیا ہے وہ میرے پاس موجود ہے (وہ یہ لے سکتے ہیں) رسول اللہ ﷺ نے ثابت ؓ سے کہا: ”وہ ان سے لے لو (اور ان کو چھوڑ دو)“ تو انہوں نے ان سے لے لیا اور وہ (وہاں سے آ کر) اپنے گھر والوں کے ساتھ رہنے لگیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Yahya bin Sa'eed, from 'Amrah bint 'Abdur-Rahman, that she told him about Habibah bint Sahl: "She was married to Thabit bin Qais bin Shammas. The Messenger of Allah (ﷺ) went out to pray As-Subh and he found Habibah bint Sahl at his door at the end of the night. The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'Who is this?' She said: 'I am Habibah bint Sahl, O Messenger of Allah.' He said: 'What is the matter?' She said: 'I cannot live with Thabit bin Qais' -her husband. When Thabit bin Qais came, the Messenger of Allah (ﷺ) said to him: 'Here is Habibah bint Sahl and she has said what Allah willed she should say.' Habibah said: 'O Messenger of Allah, everything that he gave me is with me.' The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'Take it from her.' So he took it from her and she stayed with her family.