باب: جب کوئی شخص اپنی بیوی پر اشارتاً زنا کا الزام لگائے اور بچے کی نفی سے چپ رہے مگر ارادہ نفی ہی کا ہو؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: If A Man Hints An Accusation About His Wife, And Wanted To Disown The Child)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3479.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ بنوفزارہ میں سے ایک آدمی نبیﷺ کے پاس آکر کہنے لگا: میری بیوی نے سیاہ بچہ جنا ہے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ میرا نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تیرے پاس اونٹ ہیں؟“ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”کس رنگ کے ہیں؟“ اس نے کہا: سرخ۔ فرمایا: ”کیا ان میں خاکستری بھی ہے؟“ اس نے کہا: جی کئی خاکستری ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”تو اسے تو کیا سمجھتا ہے؟“ وہ کہنے لگا: کسی جدی رگ کا اثر ہوسکتا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اس بچے میں بھی کسی جدی رگ کا اثر ہوسکتا ہے۔“ آپ نے اسے بچے کی نفی کی اجازت نہیں دی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3481
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3479
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3509
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ بنوفزارہ میں سے ایک آدمی نبیﷺ کے پاس آکر کہنے لگا: میری بیوی نے سیاہ بچہ جنا ہے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ میرا نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تیرے پاس اونٹ ہیں؟“ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”کس رنگ کے ہیں؟“ اس نے کہا: سرخ۔ فرمایا: ”کیا ان میں خاکستری بھی ہے؟“ اس نے کہا: جی کئی خاکستری ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”تو اسے تو کیا سمجھتا ہے؟“ وہ کہنے لگا: کسی جدی رگ کا اثر ہوسکتا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اس بچے میں بھی کسی جدی رگ کا اثر ہوسکتا ہے۔“ آپ نے اسے بچے کی نفی کی اجازت نہیں دی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی فزارہ کا ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہا: میری بیوی نے ایک کالے رنگ کا بچہ جنا ہے اور وہ اسے اپنا بیٹا ہونے کے انکار کا سوچ رہا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟“ ، اس نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: ”ان کے رنگ کیسے ہیں؟“ اس نے کہا: سرخ، آپ نے فرمایا: ”کیا ان میں کوئی خاکستری رنگ بھی ہے؟“ اس نے کہا (جی ہاں) خاکستری رنگ کے اونٹ بھی ہیں۔ آپ نے فرمایآ: ”تمہارا کیا خیال ہے یہ رنگ کہاں سے آیا؟“ اس نے کہا: کسی رگ نے اسے کھینچا ہو گا۔ آپ نے فرمایا: ”(یہ بھی ایسا ہی سمجھ) کسی رگ نے اسے بھی کھینچا ہو گا“، آپ ﷺ نے اسے بچے کے اپنی اولاد ہونے سے انکار کی رخصت و اجازت نہ دی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Hurairah said: "A man from Banu Fazarah came to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) and said: 'My wife has given birth to a black boy' -and he wanted to disown him. He said: 'Do you have camels?' He said: 'Yes.' He said: 'What color are they?' He said: 'Red.' He said: 'Are there any gray ones among them?' He said: 'There are some gray camels among them.' He said: 'Why is that do you think?' He said: 'Perhaps it is hereditary.' He said: 'Perhaps this is hereditary.' And he did not permit him to disown him.