باب: اگر بیوی کا خاوند یا لونڈی کا مالک بچے کی نفی نہ کرے تو بچہ (قانونی طور پر) اسی کا ہوگا
)
Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: Attributing The Child To The Bed If The Owner Of The Bed Does Not Disown Him)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3485.
حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ بیان کرتے ہیں کہ زمعہ کی ایک لونڈی تھی جس سے وہ جماع کیا کرتا تھا۔ لیکن وہ ایک اور شخص کے بارے میں سمجھتا تھا کہ وہ بھی اس سے زنا کرتا ہے۔ بعد میں اس لونڈی نے اس شخص کے مشابہ بچہ جنا جس کے بارے میں اس کا یہ خیال تھا۔ خیر! زمعہ فوت ہوا تو وہ حاملہ تھی۔ حضرت سودہ نے اس بات کا ذکر رسول اللہﷺ سے کیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”بچہ تو گھر والے کی طرف ہی منسوب ہوگا لیکن تو اس سے پردہ کیا کر کیونکہ حقیقتاً وہ تیرا بھائی نہیں۔“
تشریح:
”منسوب ہوگا“ کیونکہ گھر والا فوت ہوچکا ہے۔ انکار کا امکان نہیں رہا۔ اگر وہ زندہ ہوتا اور انکار کردیتا تو پھر بچہ اس کی طرف منسوب نہ ہوتا بلکہ اس لونڈی کی طرف ہی منسوب ہوتا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3487
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3485
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3515
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ بیان کرتے ہیں کہ زمعہ کی ایک لونڈی تھی جس سے وہ جماع کیا کرتا تھا۔ لیکن وہ ایک اور شخص کے بارے میں سمجھتا تھا کہ وہ بھی اس سے زنا کرتا ہے۔ بعد میں اس لونڈی نے اس شخص کے مشابہ بچہ جنا جس کے بارے میں اس کا یہ خیال تھا۔ خیر! زمعہ فوت ہوا تو وہ حاملہ تھی۔ حضرت سودہ نے اس بات کا ذکر رسول اللہﷺ سے کیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”بچہ تو گھر والے کی طرف ہی منسوب ہوگا لیکن تو اس سے پردہ کیا کر کیونکہ حقیقتاً وہ تیرا بھائی نہیں۔“
حدیث حاشیہ:
”منسوب ہوگا“ کیونکہ گھر والا فوت ہوچکا ہے۔ انکار کا امکان نہیں رہا۔ اگر وہ زندہ ہوتا اور انکار کردیتا تو پھر بچہ اس کی طرف منسوب نہ ہوتا بلکہ اس لونڈی کی طرف ہی منسوب ہوتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ زمعہ کی ایک لونڈی تھی جس سے وہ صحبت کرتا تھا اور اس کا یہ بھی خیال تھا کہ کوئی اور بھی ہے جو اس سے بدکاری کیا کرتا ہے۔ چنانچہ اس لونڈی سے ایک بچہ پیدا ہوا اور وہ بچہ اس شخص کی صورت کے مشابہ تھا جس کے بارے میں زمعہ کا گمان تھا کہ وہ اس کی لونڈی سے بدکاری کرتا ہے، وہ لونڈی حاملہ تھی جب ہی زمعہ کا انتقال ہو گیا، اس بات کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے ام المؤمنین سودہ (سودہ بنت زمعہ) ؓ نے کیا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بچہ فراش والے کا ہے۱؎ اور سودہ! تم اس سے پردہ کرو کیونکہ (فی الواقع) وہ تمہارا بھائی نہیں ہے۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی بیوی یا لونڈی جس کی ہو گی بچہ اس کا مانا جائے گا جب تک کہ وہ خود ہی اس کا انکار نہ کرے اور یہ نہ کہے کہ یہ بچہ میرے نطفے کا نہیں ہے، اگرچہ خارجی اسباب سے معلوم بھی ہوتا ہو کہ یہ اس کے نطفہ کا نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Abdullah bin Az-Zubair said: "Zam'ah had a slave woman with whom he used to have intercourse, but he suspected that someone else was also having intercourse with her. She gave birth to a child who resembled the one whom he suspected. Zam'ah died when she was pregnant, and Sawdah mentioned that to the Messenger of Allah. The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'The child is the bed's, but veil yourself from him, O Sawdah, for he is not a brother of yours.