باب: جب بچے کے بارے میں تنازع ہوجائے تو قرعہ ڈالا جاسکتا ہے نیز زید بن ارقم کی حدیث میں شعبی پر اختلاف کا ذکر
)
Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: Drawing Lots For A Child If Several Men Dispute Over Him)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3488.
حضرت زید بن ارقم ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی ؓ کے پاس یمن میں تین آدمی لائے گئے جنہوں نے ایک عورت کے ساتھ ایک طہر میں جماع کیا تھا۔ آپ نے ان میں سے دو سے پوچھا: کیا تم اس (تیسرے) کے لیے بچے کا اقرار کرتے ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں‘ پھر دوسرے دو سے پوچھا: تم اس تیسرے کے لیے یہ بچہ تسلیم کرتے ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ آخر آپ نے ان میں قرعہ ڈالا اور بچہ اسے دے دیا جس کے نام پر قرعہ نکلا تھا۔ اور اس پر اس بچے کی دوتہائی دیت ڈال دی۔ یہ بات رسول اللہﷺ سے ذکر کی گئی تو آپ ہنسنے لگے حتیٰ کہ آپ کی داڑھیں نظر آنے لگیں۔
تشریح:
(۱) مذکورہ روایت کو فاضل محقق رحمہ اللہ نے سنداً ضعیف کہا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح کہا ہے اور راجح رائے نے انہی کی ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس پر مفصل بحث کی ہے اور یہی نتیجہ اخذ کیا ہے‘ لہٰذا مذکورہ روایت قابل حجت اور قابل عمل ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (سنن ابی داود (مفصل) للألبانی‘ رقم: ۱۹۶۴‘ وسنن ابن ماجہ بتحقیق الدکتور بشارعواد‘ رقم:۲۳۴۸‘ وذخیرۃ العقبیٰ‘ شرح سنن النسائی: ۲۹/۱۸۷) (2) اصل واقعہ جاہلیت کے دور کا تھا کیونکہ اسلام میں تو ایسا ممکن ہی نہیں کہ تین آدمی ایک طہر میں ایک عورت سے جماع کریں۔ چونکہ جاہلیت کے کاموں پر سزا نہیں دی جاسکتی تھی بلکہ اس دور کے تصرفات کو قانونی طور پر تسلیم کر لیا گیا تھا کہ جو ہوا سو ہوا‘ آئندہ کے لیے اس واقعہ کا حل بھی ضروری تھا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی خدا داد ذہانت سے تجویز فرمایا۔ رَضِي اللّٰہُ عَنْه وَأَرْضَاہُ۔ (3) ”قرعہ نکلا“اگر کسی چیز پر کئی افراد کا حق برابر ہو لیکن وہ سب کو نہ مل سکتی ہو تو قرعہ اندازی کے ذریعے سے فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ احادیث میں اس کا ثبوت ہے مگر احناف قرعہ اندازی کے قائل نہیں‘ حالانکہ کئی دعوے دارو ں کو مطمئن کرنے کے لیے قرعہ اندازی کرنا ایک فطری چیز ہے جو ہر معاشرے میں مستعمل ہے اور اس سے فیصلے ہوتے ہیں۔ جھگڑے نپٹ جاتے ہیں۔ ایسی چیز کا عقلی بنیاد پر انکار فطرت انسانیہ کے خلاف ہے۔ ہر چیز کا فیصلہ عقلی بنیاد پر ہی نہیں ہوتا‘ فطرت اصل ہے۔ (4) ”دوتہائی دیت ڈال دی“ کیونکہ ان کو بچہ نہ مل سکا تھا‘ لہٰذا انہیں مال دے دیا۔ شرعاً بچے کی قیمت دیت معتبر ہے‘ اس لیے دیت کے لحاظ سے انہیں مال دے دیا۔ (5) ثابت ہوا کہ بچہ ایک آدمی ہی کو ملے گا۔ دو آدمی ایک بچے میں شریک نہیں ہو سکتے‘ یعنی بچے کا نسب ایک آدمی کے ساتھ ثابت ہوگا۔ (6) ”ہنسنے لگے“ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذہانت پر یا اس عجیب واقعہ پر۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3490
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3488
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3518
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت زید بن ارقم ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی ؓ کے پاس یمن میں تین آدمی لائے گئے جنہوں نے ایک عورت کے ساتھ ایک طہر میں جماع کیا تھا۔ آپ نے ان میں سے دو سے پوچھا: کیا تم اس (تیسرے) کے لیے بچے کا اقرار کرتے ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں‘ پھر دوسرے دو سے پوچھا: تم اس تیسرے کے لیے یہ بچہ تسلیم کرتے ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ آخر آپ نے ان میں قرعہ ڈالا اور بچہ اسے دے دیا جس کے نام پر قرعہ نکلا تھا۔ اور اس پر اس بچے کی دوتہائی دیت ڈال دی۔ یہ بات رسول اللہﷺ سے ذکر کی گئی تو آپ ہنسنے لگے حتیٰ کہ آپ کی داڑھیں نظر آنے لگیں۔
حدیث حاشیہ:
(۱) مذکورہ روایت کو فاضل محقق رحمہ اللہ نے سنداً ضعیف کہا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح کہا ہے اور راجح رائے نے انہی کی ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس پر مفصل بحث کی ہے اور یہی نتیجہ اخذ کیا ہے‘ لہٰذا مذکورہ روایت قابل حجت اور قابل عمل ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (سنن ابی داود (مفصل) للألبانی‘ رقم: ۱۹۶۴‘ وسنن ابن ماجہ بتحقیق الدکتور بشارعواد‘ رقم:۲۳۴۸‘ وذخیرۃ العقبیٰ‘ شرح سنن النسائی: ۲۹/۱۸۷) (2) اصل واقعہ جاہلیت کے دور کا تھا کیونکہ اسلام میں تو ایسا ممکن ہی نہیں کہ تین آدمی ایک طہر میں ایک عورت سے جماع کریں۔ چونکہ جاہلیت کے کاموں پر سزا نہیں دی جاسکتی تھی بلکہ اس دور کے تصرفات کو قانونی طور پر تسلیم کر لیا گیا تھا کہ جو ہوا سو ہوا‘ آئندہ کے لیے اس واقعہ کا حل بھی ضروری تھا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی خدا داد ذہانت سے تجویز فرمایا۔ رَضِي اللّٰہُ عَنْه وَأَرْضَاہُ۔ (3) ”قرعہ نکلا“اگر کسی چیز پر کئی افراد کا حق برابر ہو لیکن وہ سب کو نہ مل سکتی ہو تو قرعہ اندازی کے ذریعے سے فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ احادیث میں اس کا ثبوت ہے مگر احناف قرعہ اندازی کے قائل نہیں‘ حالانکہ کئی دعوے دارو ں کو مطمئن کرنے کے لیے قرعہ اندازی کرنا ایک فطری چیز ہے جو ہر معاشرے میں مستعمل ہے اور اس سے فیصلے ہوتے ہیں۔ جھگڑے نپٹ جاتے ہیں۔ ایسی چیز کا عقلی بنیاد پر انکار فطرت انسانیہ کے خلاف ہے۔ ہر چیز کا فیصلہ عقلی بنیاد پر ہی نہیں ہوتا‘ فطرت اصل ہے۔ (4) ”دوتہائی دیت ڈال دی“ کیونکہ ان کو بچہ نہ مل سکا تھا‘ لہٰذا انہیں مال دے دیا۔ شرعاً بچے کی قیمت دیت معتبر ہے‘ اس لیے دیت کے لحاظ سے انہیں مال دے دیا۔ (5) ثابت ہوا کہ بچہ ایک آدمی ہی کو ملے گا۔ دو آدمی ایک بچے میں شریک نہیں ہو سکتے‘ یعنی بچے کا نسب ایک آدمی کے ساتھ ثابت ہوگا۔ (6) ”ہنسنے لگے“ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذہانت پر یا اس عجیب واقعہ پر۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
زید بن ارقم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ علی ؓ جب یمن میں تھے ان کے پاس تین آدمی لائے گئے، ایک ہی طہر (پاکی) میں ان تینوں نے ایک عورت کے ساتھ جماع کیا تھا (جھگڑا لڑکے کے تعلق سے تھا کہ ان تینوں میں سے کس کا ہے) انہوں نے دو کو الگ کر کے پوچھا: کیا تم دونوں یہ لڑکا تیسرے کا تسلیم و قبول کرتے ہو، انہوں نے کہا: نہیں، پھر انہوں نے دو کو الگ کر کے تیسرے کے بارے میں پوچھا: کیا تم دونوں لڑکا اس کا مانتے ہو، انہوں نے کہا: نہیں، پھر انہوں نے ان تینوں کے نام کا قرعہ ڈالا اور جس کے نام پر قرعہ نکلا بچہ اسی کو دے دیا، اور دیت کا دو تہائی اس کے ذمہ کر دیا (اور اس سے لے کر ایک ایک تہائی ان دونوں کو دے دیا)۱؎ یہ بات نبی اکرم ﷺ کے سامنے ذکر کی گئی تو آپ ہنس پڑے اور ایسے ہنسے کہ آپ کی داڑھ دکھائی دینے لگی۔۲؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : دیت کے دو تہائی کا مفہوم یہ ہے کہ لونڈی کی قیمت کا دو ثلث اسے ادا کرنا پڑا، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قرعہ کے ذریعہ فیصلہ کیا جا سکتا ہے اور کسی لڑکے کے جب کئی دعویدار ہوں تو قیافہ کے بجائے قرعہ کے ذریعہ فیصلہ ہو گا، جو لوگ قرعہ کے بجائے قیافہ کے قائل ہیں ممکن ہے انہوں نے علی رضی الله عنہ کی اس حدیث کو اس حالت پر محمول کیا ہو جب قیافہ شناس موجود نہ ہو (واللہ أعلم)۔ ۲؎ : یعنی علی رضی الله عنہ کے اس انوکھے و عجیب فیصلے پر آپ کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Zaid bin Arqam (RA) said: "Three men were brought to 'Ali (RA) while he was in Yemen; they all had intercourse with a woman during a single menstrual cycle. He asked two of them: 'Do you affirm that this child belongs to (the third man)?' And they said: 'No.' He asked another two of them: 'Do you affirm that this child belongs to (the third man)?' And they said: 'No.' So he cast lots between them, and attributed the child to the one whom the lot fell, and obliged him to pay two-thirds of the Diyah. The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) was told of this, and he laughed so much that his back teeth became visible.