Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: The 'Iddah Of A Woman Whose Husband Dies)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3501.
حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ سے ایک عورت کے بارے میں پوچھا گیا جس کا خاوند فوت ہوچکا تھا اور اسکی آنکھوں کے ضائع ہونے کا خطرہ تھا‘ کیا وہ سرمہ ڈال سکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: (دور جاہلیت میں) ایک عورت کو اپنے گھر میں ایک سال تک بدترین ٹاٹ میں رہنا پڑتا تھا‘ پھر وہ نکلی تھی۔ تو کیا اب وہ چار مہینے دس دن تک انتظار نہیں کرسکتی۔؟“
تشریح:
(1) جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔ یہ متفقہ بات ہے بشرطیکہ وہ حاملہ نہ ہو۔ اس عدت کے دوران میں عورت کو سوگ کی کیفیت میں رہنا ہوگا‘ یعنی ہر قسم کی زیب وزینت سے پرہیز کرنا ہوگا۔ سرمہ بھی زینت ہے‘ لہٰذا سوگ کے دوران میں وہ سرمہ نہیں لگا سکتی۔ اگر آنکھوں میں تکلیف ہوتو کوئی اور دوا استعمال کی جائے جو زینت کا کام نہ دے۔ (2) جاہلیت میں دستور تھا کہ جس عورت کا خاوند فوت ہوجاتا اسے ایک سال الگ تھلگ کمرے میں رکھا جاتا تھا۔ نہانے دھونے تک کی اجازت نہ ہوتی تھی حتیٰ کہ غسل حیض بھی نہیں کرسکتی تھی۔ کپڑے بھی وہی رہتے تھے۔ تبھی حدیث میں ان کو ”بدترین ٹاٹ“ کہا گیا ہے۔ اس دوران وہ اس قدر بدبودار اور زہریلی بن جاتی کہ اگر کوئی جانور اس کے جسم کو چھوتا تو وہ بھی مرجاتا تھا۔ ایک سال کے بعد اسے کمرے سے نکالا جاتا اور اسے اونٹ کی ایک مینگنی دی جاتی جسے وہ اپنے سر کے اوپر سے پیچھے پھینکتی تھی۔ گویا اب اس کی بری حالت ختم ہوچکی ہے‘ نیز یہ عدت ختم ہونے کی علامت تھی جب کہ اسلام نے صرف زینت سے روکا ہے۔ وہ گھر کے دوسرے افراد کے ساتھ ہی رہے گی‘ نہائے دھوئے گی‘ البتہ نئے یا شوخ کپڑوں‘ زیورات‘ میک اپ اور دوسری زیب وزینت سے پرہیز کرے گی اور حتی الامکان گھر میں رہے گی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3503
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3501
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3531
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ سے ایک عورت کے بارے میں پوچھا گیا جس کا خاوند فوت ہوچکا تھا اور اسکی آنکھوں کے ضائع ہونے کا خطرہ تھا‘ کیا وہ سرمہ ڈال سکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: (دور جاہلیت میں) ایک عورت کو اپنے گھر میں ایک سال تک بدترین ٹاٹ میں رہنا پڑتا تھا‘ پھر وہ نکلی تھی۔ تو کیا اب وہ چار مہینے دس دن تک انتظار نہیں کرسکتی۔؟“
حدیث حاشیہ:
(1) جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔ یہ متفقہ بات ہے بشرطیکہ وہ حاملہ نہ ہو۔ اس عدت کے دوران میں عورت کو سوگ کی کیفیت میں رہنا ہوگا‘ یعنی ہر قسم کی زیب وزینت سے پرہیز کرنا ہوگا۔ سرمہ بھی زینت ہے‘ لہٰذا سوگ کے دوران میں وہ سرمہ نہیں لگا سکتی۔ اگر آنکھوں میں تکلیف ہوتو کوئی اور دوا استعمال کی جائے جو زینت کا کام نہ دے۔ (2) جاہلیت میں دستور تھا کہ جس عورت کا خاوند فوت ہوجاتا اسے ایک سال الگ تھلگ کمرے میں رکھا جاتا تھا۔ نہانے دھونے تک کی اجازت نہ ہوتی تھی حتیٰ کہ غسل حیض بھی نہیں کرسکتی تھی۔ کپڑے بھی وہی رہتے تھے۔ تبھی حدیث میں ان کو ”بدترین ٹاٹ“ کہا گیا ہے۔ اس دوران وہ اس قدر بدبودار اور زہریلی بن جاتی کہ اگر کوئی جانور اس کے جسم کو چھوتا تو وہ بھی مرجاتا تھا۔ ایک سال کے بعد اسے کمرے سے نکالا جاتا اور اسے اونٹ کی ایک مینگنی دی جاتی جسے وہ اپنے سر کے اوپر سے پیچھے پھینکتی تھی۔ گویا اب اس کی بری حالت ختم ہوچکی ہے‘ نیز یہ عدت ختم ہونے کی علامت تھی جب کہ اسلام نے صرف زینت سے روکا ہے۔ وہ گھر کے دوسرے افراد کے ساتھ ہی رہے گی‘ نہائے دھوئے گی‘ البتہ نئے یا شوخ کپڑوں‘ زیورات‘ میک اپ اور دوسری زیب وزینت سے پرہیز کرے گی اور حتی الامکان گھر میں رہے گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے اس عورت کے متعلق پوچھا گیا جس کا شوہر مر گیا ہو اور سرمہ (و کاجل) نہ لگانے سے اس کی آنکھوں کے خراب ہو جانے کا خوف و خطرہ ہو تو کیا وہ سرمہ لگا سکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: ”(زمانہ جاہلیت میں) تمہاری ہر عورت (اپنے شوہر کے سوگ میں) اپنے گھر میں انتہائی خراب، گھٹیا و گندا کپڑا (اونٹ کی کاٹھ کے نیچے کے کپڑے کی طرح) پہن کر سال بھر گھر میں بیٹھی رہتی تھی، پھر کہیں (سال پورا ہونے پر) نکلتی تھی۔ اور اب چار مہینے دس دن بھی تم پر بھاری پڑ رہے ہیں۔؟“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی اسلام کی رو سے وہ چار ماہ دس دن صبر نہیں کر سکتی؟ یہ مدت تو سال کے مقابلہ میں اللہ کی جانب سے ایک رحمت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Zainab bint Umm Salamah -I (the narrator) said: "From her mother?" He said: "Yes" - "that the Prophet was asked about a woman whose husband had died but they were worried about her eyes - could she use kohl?" He said: "One of you used to stay in her house wearing her shabbiest clothes for a year, then she would come out. No, (the mourning period is) four months and ten (days)."