Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: The 'Iddah Of A Pregnant Woman Whose Husband Dies)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3511.
حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس ؓ سے اس عورت کے بارے میں پوچھا گیا جو اپنے خاوند کی وفات کے بیس راتیں بعد بچہ جن دے‘ کیا اس کے لیے آگے نکاح کرنا درست ہے؟ انہوں نے فرمایا: نہیں‘ بلکہ اسے دونوں (چار ماہ دس دن اور بچہ جننا) میں سے آخری عدت پوری کرنی ہوگی۔ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {وَاُولاَتُ الْاَحْمَلِ… حَمْلَھُنَّ} ”حاملہ عورتوں کی عدت یہ ہے کہ بچہ جن دیں۔“ آپ فرمانے لگے: یہ طلاق کی صورت میں ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا: میں اپنے بھتیجے (ابوسلمہ) کے ساتھ ہوں۔ چنانچہ حضرت ابن عباس ؓ نے اپنے غلام کریب کو بھیجا اور فرمایا: حضرت ام سلمہؓ کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو‘ کیا اس بارے میں رسول اللہﷺ کا کوئی فرمان ہے؟ وہ گیا تو انہوں نے فرمایا: ہاں‘ سبیعہ اسلمیہ نے اپنے خاوند کی وفات سے بیس دن بعد بچہ جن دیا تھا تو رسول اللہﷺ نے اسے نکاح کرنے کی اجازت دے دی۔ اور حضرت ابوسنابل نے بھی اسے شادی کا پیغام بھیجا تھا۔
تشریح:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ سوگ کی مدت تو ہر حال میں ضروری ہے اور وضع حمل بھی۔ چونکہ رسول اللہﷺ کا فرمان اس سے مختلف تھا‘ اس لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنے قول سے رجوع فرما لیا تھا۔ رَضِي اللّٰہُ عَنْه وَأَرْضَاہُ۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3513
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3511
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3541
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس ؓ سے اس عورت کے بارے میں پوچھا گیا جو اپنے خاوند کی وفات کے بیس راتیں بعد بچہ جن دے‘ کیا اس کے لیے آگے نکاح کرنا درست ہے؟ انہوں نے فرمایا: نہیں‘ بلکہ اسے دونوں (چار ماہ دس دن اور بچہ جننا) میں سے آخری عدت پوری کرنی ہوگی۔ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {وَاُولاَتُ الْاَحْمَلِ… حَمْلَھُنَّ} ”حاملہ عورتوں کی عدت یہ ہے کہ بچہ جن دیں۔“ آپ فرمانے لگے: یہ طلاق کی صورت میں ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا: میں اپنے بھتیجے (ابوسلمہ) کے ساتھ ہوں۔ چنانچہ حضرت ابن عباس ؓ نے اپنے غلام کریب کو بھیجا اور فرمایا: حضرت ام سلمہؓ کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو‘ کیا اس بارے میں رسول اللہﷺ کا کوئی فرمان ہے؟ وہ گیا تو انہوں نے فرمایا: ہاں‘ سبیعہ اسلمیہ نے اپنے خاوند کی وفات سے بیس دن بعد بچہ جن دیا تھا تو رسول اللہﷺ نے اسے نکاح کرنے کی اجازت دے دی۔ اور حضرت ابوسنابل نے بھی اسے شادی کا پیغام بھیجا تھا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ سوگ کی مدت تو ہر حال میں ضروری ہے اور وضع حمل بھی۔ چونکہ رسول اللہﷺ کا فرمان اس سے مختلف تھا‘ اس لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنے قول سے رجوع فرما لیا تھا۔ رَضِي اللّٰہُ عَنْه وَأَرْضَاہُ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ ابن عباس ؓ سے ایسی عورت کے متعلق پوچھا گیا جس نے اپنے شوہر کے انتقال کے بیس رات بعد بچہ جنا، کیا اس کے لیے نکاح کر لینا جائز و درست ہو گا؟ انہوں نے کہا: اس وقت تک نہیں جب تک کہ دونوں عدتوں میں سے بعد میں مکمل ہونے والی عدت کو پوری نہ کر لے۔ ابوسلمہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے: «وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن» یعنی”جن کے پیٹ میں بچہ ہے ان کی عدت یہ ہے کہ بچہ جن دیں۔“ ابن عباس ؓ نے کہا: یہ حکم مطلقہ (حاملہ) کا ہے۔ ابوہریرہ ؓ نے کہا: میں اپنے بھتیجے ابوسلمہ کے ساتھ ہوں (یعنی ابوسلمہ جو کہتے ہیں وہی میرے نزدیک بھی صحیح اور بہتر ہے) اس گفتگو کے بعد ابن عباس ؓ نے اپنے غلام کریب کو بھیجا کہ ام المؤمنین ام سلمہ ؓ کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو کہ کیا اس سلسلے میں بھی رسول اللہ ﷺ کی کوئی سنت موجود ہے؟ کریب ان کے پاس آئے اور انہیں (ساری بات) بتائی، تو انہوں نے کہا: ہاں، سبیعہ اسلمی ؓ نے اپنے شوہر کے انتقال کے بعد کی بیس راتیں گزرنے کے بعد بچہ جنا اور رسول اللہ ﷺ نے اسے شادی کرنے کی اجازت دی، اور ابوسنابل ؓ انہیں لوگوں میں سے تھے جنہوں نے اسے شادی کا پیغام دیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Salamah bin 'Abdur-Rahman said: "It was said to Ibn 'Abbas concerning a woman who gives birth one day after her husband died: 'Can she get married?' He said: 'No, not until the longer of the two periods has ended.' He said: 'Allah says: And for those who are pregnant (whether they are divorced or their husbands are dead), their 'Iddah (prescribed period) is until they lay down their burden.' He said: 'That only applies in the case of divorce.' Abu Hurairah said: 'I agree with my brother's son' --meaning, Abu Salamah. He sent his slave Kuraib and told him: 'Go to Umm Salamah and ask her: Was this the Sunnah of the Messenger of Allah?' He came back and said: 'Yes, Subai'ah Al-Aslamiyyah gave birth twenty days after her husband died, and the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) told her to get married, and Abu As-Sanabil was one of those who proposed marriage to her.