باب: جس عورت کو طلاق بائن ہوچکی ہو‘ وہ دوران عدت اپنے گھر سے کسی دوسری جگہ جاسکتی ہے
)
Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: Concession Allowing An Irrevocably-Divorced Woman To Leave Her House During Her 'Iddah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3549.
حضرت فاطمہ بنت قیسؓ سے روایت ہے‘ کہتی ہیں کہ میرے خاوند نے مجھے طلاق دے دی۔ میں نے خاوند کے گھر سے منتقل ہونے کا ارادہ کرلیا۔ چنانچہ میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ نے فرمایا: ”اپنے چچا کے بیٹے عمرو بن ام مکتوم کے گھر منتقل ہوجا اور وہاں عدت پوری کر۔“ (یہ سن کر) حضرت اسود نے حضرت شعبی کو مار کر کہا: تو مرے! ایسا فتویٰ کیوں دیتا ہے؟ حضرت عمر ؓ نے فرمایا تھا: اگر تو دوگواہ لے آئے جو گواہی دیں کہ واقعتا رسول اللہﷺ سے ہم نے یہ بات سنی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ ہم ایک عورت کے کہنے سے اللہ تعالیٰ کی کتاب کا یہ حکم نہیں چھوڑ سکتے: ﴿لا تُخْرِجُوهُنَّ…بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ﴾ ”مطلقہ عورتوں کو گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود منتقل ہوں‘ الا یہ کہ وہ کسی واضـح برائی کا ارتکاب کربیٹھیں۔“
تشریح:
(1) اس حدیث پر مکمل بحث اور اس مسئلے کی پوری تفصیل پیچھے گزرچکی ہے۔ دیکھیے‘ حدیث: ۳۲۲۴۔ (2) حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہر حدیث کے لیے ضروری نہیں سمجھتے کہ دو شحص گواہی دیں‘ تب قبول ہوگی بلکہ وہ اس روایت کو اپنے اجتہاد کے مطابق عقل ونقل کے یکسر خلاف سمجھتے تھے اگرچہ ان کا یہ موقف درست نہ تھا کہ اوپر گزرا’ اس لیے یہ فرمایا‘ ورنہ بہت سے مقامات پر ایک آدمی کی روایت کو انہوں نے قبول فرمایا ہے اور عمل کیا ہے‘ مثلاً: مجوس سے جزیہ وصول کرنے اور طاعون کے علاقے سے نکلنے کے بارے میں روایت۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3553
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3551
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3579
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت فاطمہ بنت قیسؓ سے روایت ہے‘ کہتی ہیں کہ میرے خاوند نے مجھے طلاق دے دی۔ میں نے خاوند کے گھر سے منتقل ہونے کا ارادہ کرلیا۔ چنانچہ میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ نے فرمایا: ”اپنے چچا کے بیٹے عمرو بن ام مکتوم کے گھر منتقل ہوجا اور وہاں عدت پوری کر۔“ (یہ سن کر) حضرت اسود نے حضرت شعبی کو مار کر کہا: تو مرے! ایسا فتویٰ کیوں دیتا ہے؟ حضرت عمر ؓ نے فرمایا تھا: اگر تو دوگواہ لے آئے جو گواہی دیں کہ واقعتا رسول اللہﷺ سے ہم نے یہ بات سنی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ ہم ایک عورت کے کہنے سے اللہ تعالیٰ کی کتاب کا یہ حکم نہیں چھوڑ سکتے: ﴿لا تُخْرِجُوهُنَّ…بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ﴾ ”مطلقہ عورتوں کو گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود منتقل ہوں‘ الا یہ کہ وہ کسی واضـح برائی کا ارتکاب کربیٹھیں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث پر مکمل بحث اور اس مسئلے کی پوری تفصیل پیچھے گزرچکی ہے۔ دیکھیے‘ حدیث: ۳۲۲۴۔ (2) حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہر حدیث کے لیے ضروری نہیں سمجھتے کہ دو شحص گواہی دیں‘ تب قبول ہوگی بلکہ وہ اس روایت کو اپنے اجتہاد کے مطابق عقل ونقل کے یکسر خلاف سمجھتے تھے اگرچہ ان کا یہ موقف درست نہ تھا کہ اوپر گزرا’ اس لیے یہ فرمایا‘ ورنہ بہت سے مقامات پر ایک آدمی کی روایت کو انہوں نے قبول فرمایا ہے اور عمل کیا ہے‘ مثلاً: مجوس سے جزیہ وصول کرنے اور طاعون کے علاقے سے نکلنے کے بارے میں روایت۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی تو میں نے (شوہر کے گھر سے) منتقل ہو جانے کا ارادہ کیا اور رسول اللہ ﷺ کے پاس (اجازت طلب کرنے کی غرض سے) آئی، آپ نے (اجازت عطا فرمائی) فرمایا:”اپنے چچا زاد بھائی عمرو بن ام مکتوم کے گھر منتقل ہو جاؤ اور وہیں عدت کے دن گزارو۔“ (یہ سن کر) اسود نے ان کی طرف (انہیں متوجہ کرنے کے لیے) کنکری پھینکی اور کہا: تمہارے لیے خرابی ہے ایسا فتویٰ کیوں دیتی ہو۔ عمر ؓ نے کہا: اگر تم دو ایسے گواہ پیش کر دو جو اس بات کی گواہی دیں کہ جو تم کہہ رہی ہو اسے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے تو ہم تمہاری بات قبول کر لیں گے۔ اور اگر دو گواہ نہیں پیش کر سکتیں تو ہم کسی عورت کے کہنے سے کلام پاک کی آیت: «لا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلا يَخْرُجْنَ إِلا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ»”نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں، ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کھلی برائی کر بیٹھیں۔“ (الطلاق: ۱) پر عمل کرنا ترک نہیں کر سکتے۔
حدیث حاشیہ:
1
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Fatimah bint Qais said: "My husband divorced me and I wanted to move, so I went to the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) and he said: 'Move to the house of your paternal cousin 'Amr bin Umm Maktum, and observe your 'Iddah there.'" Al-Aswad hit him (Ash-Sha'bi) with a pebble and said: "Woe be to you! Why do you issue such a Fatwa? 'Umar said: 'If you bring two witnesses who will testify that they heard that from the Messenger of Allah (we will believe you), otherwise, we will not leave the Book of Allah for the word of a woman.' 'And turn them not out of their (husband's) homes nor shall they (themselves) leave, except in case they are guilty of some open Fahishah.