کتاب: گھوڑوں‘گھڑ دوڑ پر انعام اور تیر اندازی سے متعلق احکام و مسائل
(
باب: گھوڑی کو گدھے سے جفتی کرانا سخت گناہ ہے
)
Sunan-nasai:
The Book of Horses, Races and Shooting
(Chapter: Stern Warning Against Mating A Donkey With A Horse)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3581.
حضرت عبداللہ بن عبید اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ میں حضرت ابن عباس ؓ کے پاس بیٹھا تھا۔ اتنے میں ایک آدمی نے ان سے پوچھا: کیا رسول اللہ ﷺ ظہر اور عصر کی نماز میں قرأت فرماتے تھے؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ اس آدمی نے کہا: ممکن ہے کہ آپ دل میں پڑھتے ہوں؟ وہ کہنے لگے: اللہ کرے تو زخمی ہو۔ یہ تو پہلے سے بری بات ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے بندے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو بھی کام دیے‘ آپ نے آگے پہنچا دیا۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ نے ہم (اہل بیت) کو لوگوں سے الگ کوئی خصوصی حکم نہیں دیا مگر یہ تین چیزیں (ہوں تو ہوں): آپ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم وضو اچھی طرح کریں‘ ہم صدقہ نہ کھائیں اور گھوڑی کو گدھے سے جفتی نہ کرائیں۔
تشریح:
(1) ”نہیں“ صحابہ کرامؓ میں سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس خیال میں متفرد ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ظہر اور عصر میں مطلقاً قراء ت نہیں کرتے تھے۔ اونچی نہ آہستہ۔ دیگر صحابہ سے صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ظہر وعصر میں بھی آہستہ قراء ت فرماتے تھے‘ لہٰذا اسے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی غلط فہمی یا لا علمی پر محمول کیا جائے گا۔ غلطی سے اللہ تعالیٰ ہی پاک ہے۔ (2) ’’زخمی ہو‘‘ ناراضی سے فرمایا‘ حالانکہ اس شخص کی بات بجا تھی۔ آپ کے اونچا نہ پڑھنے سے یہ استدلال کیسے کیا جاسکتا ہےکہ آپ بلکل نہیں پڑھتے تھے؟ باقی ساری نماز بھی تو آہستہ ہی پڑھی جاتی ہے۔ تو کیا ساری نماز میں خاموش رہتے تھے؟ اس بات کے تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی قائل نہیں تھے۔ درحقیقت یہ ان کی غلطی ہے۔ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْهُ وَأَرْضَاہُ۔ (3) ”تین چیزیں“ مگر یہ تین چیزیں بھی اہل بیت سے خاص نہیں۔ وضـو اچھی طرح کرنا سب کے لیے ضروری ہے۔ صدقہ بھی ہر مال دار پر حرام ہے تیسرا کام بھی ہرامتی کے لیے منع ہے‘ البتہ ”معززین“ کے لیے زیادہ سختی ہے۔ وہ اہل بیت ہوں یا اہل علم۔ واللہ أعلم۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح. وأخرجه الترمذي مختصراً؛ وقال: حديث
حسن صحيح )
إسناده: حدثنا مسدد ثنا: عبد الوارث عن موسى بن سالم: ثنا عبد الله بن
عبيد الله.
(3/392)
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال البخاري؛ عْير موسى بن سالم
- وهو أبو جهضم مولى آل العباس-، وهو ثقة اتفاقاً.
والحديث أخرجه النسائي (2/121) ، والترمذي (3/31) ، وأحمد (1/249)
من طرق أخرى عن موسى بن سالم... به؛ وليس عند الترمذي ما قبل: وكان
عبد اً...، وقال:
حديث حسن صحيح
حضرت عبداللہ بن عبید اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ میں حضرت ابن عباس ؓ کے پاس بیٹھا تھا۔ اتنے میں ایک آدمی نے ان سے پوچھا: کیا رسول اللہ ﷺ ظہر اور عصر کی نماز میں قرأت فرماتے تھے؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ اس آدمی نے کہا: ممکن ہے کہ آپ دل میں پڑھتے ہوں؟ وہ کہنے لگے: اللہ کرے تو زخمی ہو۔ یہ تو پہلے سے بری بات ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے بندے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو بھی کام دیے‘ آپ نے آگے پہنچا دیا۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ نے ہم (اہل بیت) کو لوگوں سے الگ کوئی خصوصی حکم نہیں دیا مگر یہ تین چیزیں (ہوں تو ہوں): آپ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم وضو اچھی طرح کریں‘ ہم صدقہ نہ کھائیں اور گھوڑی کو گدھے سے جفتی نہ کرائیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) ”نہیں“ صحابہ کرامؓ میں سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس خیال میں متفرد ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ظہر اور عصر میں مطلقاً قراء ت نہیں کرتے تھے۔ اونچی نہ آہستہ۔ دیگر صحابہ سے صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ظہر وعصر میں بھی آہستہ قراء ت فرماتے تھے‘ لہٰذا اسے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی غلط فہمی یا لا علمی پر محمول کیا جائے گا۔ غلطی سے اللہ تعالیٰ ہی پاک ہے۔ (2) ’’زخمی ہو‘‘ ناراضی سے فرمایا‘ حالانکہ اس شخص کی بات بجا تھی۔ آپ کے اونچا نہ پڑھنے سے یہ استدلال کیسے کیا جاسکتا ہےکہ آپ بلکل نہیں پڑھتے تھے؟ باقی ساری نماز بھی تو آہستہ ہی پڑھی جاتی ہے۔ تو کیا ساری نماز میں خاموش رہتے تھے؟ اس بات کے تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی قائل نہیں تھے۔ درحقیقت یہ ان کی غلطی ہے۔ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْهُ وَأَرْضَاہُ۔ (3) ”تین چیزیں“ مگر یہ تین چیزیں بھی اہل بیت سے خاص نہیں۔ وضـو اچھی طرح کرنا سب کے لیے ضروری ہے۔ صدقہ بھی ہر مال دار پر حرام ہے تیسرا کام بھی ہرامتی کے لیے منع ہے‘ البتہ ”معززین“ کے لیے زیادہ سختی ہے۔ وہ اہل بیت ہوں یا اہل علم۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عبیداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ میں ابن عباس ؓ کے پاس تھا اس وقت ان سے کسی نے پوچھا: کیا رسول اللہ ﷺ ظہر اور عصر میں کچھ پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: نہیں، اس نے کہا ہو سکتا ہے اپنے من ہی من میں پڑھتے رہے ہوں۔ انہوں نے کہا: تم پر پتھر لگیں گے یہ تو پہلے سے بھی خراب بات تم نے کہی۔ رسول اللہ ﷺ اللہ کے بندے تھے، اللہ نے آپ کو اپنا پیغام دے کر بھیجا، آپ نے اسے پہنچا دیا۔ قسم اللہ کی، رسول اللہ ﷺ نے عامۃ الناس سے ہٹ کر ہم اہل بیت سے تین باتوں کے سوا اور کوئی خصوصیت نہیں برتی۔ ہمیں حکم دیا کہ ہم مکمل وضو کریں، ہم صدقہ کا مال نہ کھائیں اور نہ ہی گدھوں کو گھوڑیوں پر کدائیں (جفتی کرائیں)۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Abdullah bin 'Ubaidullah bin 'Abbas said: I was with Ibn 'Abbas and a man asked him: "Did the Messenger of Allah recite during Zuhr and 'Asr?" He said: "No." He said: "Perhaps he used to recite to himself?" He said: "May your face be scratched! This question is worse than the first one. The Messenger of Allah was a slave whose Lord commanded him and he conveyed (the message). By Allah, the Messenger of Allah did not specify anything for us above the people, except for three things: He commanded us to perform Wudu' properly, not to consume charity, and not to mate donkeys with horses.