کتاب: گھوڑوں‘گھڑ دوڑ پر انعام اور تیر اندازی سے متعلق احکام و مسائل
(
باب: (مال غّنیمت میں) گھوڑے کے حصول کا بیان
)
Sunan-nasai:
The Book of Horses, Races and Shooting
(Chapter: Two Shares For The Horse)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3593.
حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ فرمایا کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے جنگ خیبر میں والد محترم حضرت زبیر بن عوام ؓ کو چار حصے دیے تھے۔ ایک ان کا اپنا‘ دوسرا آپ کا رشتے دار ہونے کی وجہ سے کیونکہ عبدالمطلب کی بیٹی حضرت صفیہ ؓ حضرت زبیر ؓ کی والدہ تھیں اور باقی دوحصے گھوڑے کے۔
تشریح:
(1) حضرت زبیر رضی اللہ عنہ آپ کے پھوپھی زد بھائی تھے۔ شریعت اسلامیہ نے رسول اللہ ﷺ کے رشتے داروں کے لیے خمس میں حق رکھا تھا تاکہ یہ ان کے لیے زکاۃ کا نعم البدل بن سکے‘ نیز آپ اپنے رشتہ داروں کو تحفے تحائف دے سکیں۔ یہ خمس (پانچواں حصہ) ہر غنیمت سے الگ نکال کر بیت المال میں رکھا جاتا تھا جسے آپ اپنی صوابدید کے مطابق اپنی ذات اقدس‘ اپنے رشتے داروں اور مسلمانوں کی فلاح وبہبود اور ان کی جنگی قوت کی مضبوطی کے لیے استعمال فرماتے تھے۔ﷺ۔ (2) جمہور اہل علم اسی بات کے قائل ہیں کہ گھوڑے کو مال غنیمت میں سے دو حصے ملیں گے۔ آدمی کو ایک۔ گویا گھوڑ سوار کو تین حصے اور پیدل کو ایک حصہ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ میں گھوڑے کو انسان پر فضیلت نہیں دے سکتا‘ لہٰذا وہ گھوڑے کے لیے ایک حصے کے قائل ہیں‘ حالانکہ اس میں فضیلت کی کوئی بات نہیں۔ ویسے بھی گھوڑا انسان سے زیادہ کھاتا ہے تو کیا زیادہ کھانے کی وجہ سے وہ افضل ہوگیا؟ گھوڑے کو دوحصے دینا اسی بنا پر ہے کہ اس پر خرچ زیادہ اٹھتا ہے‘ نیز وہ جنگ میں آدمی سے زیادہ کام کرتا ہے۔ ایک سوار پیدل سے کئی گنا زیادہ مفید ہے اور یہ فرق صرف گھوڑے کی وجہ سے ہے‘ لہٰذا انصاف یہی ہے کہ اس کا حصہ آدمی سے زیادہ رکھا جائے۔ احادیث اس بارے میں صریح ہیں۔ مبہم روایات پر محمول کیا جائے گا‘ نیز حدیث کے مقابلے میں رائے اور قیاس کی کوئی اہمیت نہیں۔
حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ فرمایا کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے جنگ خیبر میں والد محترم حضرت زبیر بن عوام ؓ کو چار حصے دیے تھے۔ ایک ان کا اپنا‘ دوسرا آپ کا رشتے دار ہونے کی وجہ سے کیونکہ عبدالمطلب کی بیٹی حضرت صفیہ ؓ حضرت زبیر ؓ کی والدہ تھیں اور باقی دوحصے گھوڑے کے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت زبیر رضی اللہ عنہ آپ کے پھوپھی زد بھائی تھے۔ شریعت اسلامیہ نے رسول اللہ ﷺ کے رشتے داروں کے لیے خمس میں حق رکھا تھا تاکہ یہ ان کے لیے زکاۃ کا نعم البدل بن سکے‘ نیز آپ اپنے رشتہ داروں کو تحفے تحائف دے سکیں۔ یہ خمس (پانچواں حصہ) ہر غنیمت سے الگ نکال کر بیت المال میں رکھا جاتا تھا جسے آپ اپنی صوابدید کے مطابق اپنی ذات اقدس‘ اپنے رشتے داروں اور مسلمانوں کی فلاح وبہبود اور ان کی جنگی قوت کی مضبوطی کے لیے استعمال فرماتے تھے۔ﷺ۔ (2) جمہور اہل علم اسی بات کے قائل ہیں کہ گھوڑے کو مال غنیمت میں سے دو حصے ملیں گے۔ آدمی کو ایک۔ گویا گھوڑ سوار کو تین حصے اور پیدل کو ایک حصہ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ میں گھوڑے کو انسان پر فضیلت نہیں دے سکتا‘ لہٰذا وہ گھوڑے کے لیے ایک حصے کے قائل ہیں‘ حالانکہ اس میں فضیلت کی کوئی بات نہیں۔ ویسے بھی گھوڑا انسان سے زیادہ کھاتا ہے تو کیا زیادہ کھانے کی وجہ سے وہ افضل ہوگیا؟ گھوڑے کو دوحصے دینا اسی بنا پر ہے کہ اس پر خرچ زیادہ اٹھتا ہے‘ نیز وہ جنگ میں آدمی سے زیادہ کام کرتا ہے۔ ایک سوار پیدل سے کئی گنا زیادہ مفید ہے اور یہ فرق صرف گھوڑے کی وجہ سے ہے‘ لہٰذا انصاف یہی ہے کہ اس کا حصہ آدمی سے زیادہ رکھا جائے۔ احادیث اس بارے میں صریح ہیں۔ مبہم روایات پر محمول کیا جائے گا‘ نیز حدیث کے مقابلے میں رائے اور قیاس کی کوئی اہمیت نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہ کہتے تھے کہ (فتح) خیبر کے سال زبیر بن العوام ؓ کے لیے رسول اللہ ﷺ نے (مال غنیمت میں) چار حصے لگائے۔ ایک حصہ ان کا اپنا اور ایک حصہ قرابت داری کا لحاظ کر کے کیونکہ صفیہ بنت عبدالمطلب ؓ زبیر بن عوام ؓ کی ماں تھیں اور دو حصے گھوڑے کے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Yahya bin 'Abbad bin 'Abdullah bin Az-Zubair, from his grandfather, that he used to say: "In the year of Khaibar, the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) allocated four shares to Az-Zubair bin Al-'Awwam: A share of Az-Zubair, a share for the relatives of Safiyyah bint 'Abdul-Muttalib, the mother of Az-Zubair, and two shares for the horse.