باب: بوقت وفات جو کچھ رسول اللہﷺ نے چھوڑا اس کا بیان
)
Sunan-nasai:
The Book of Endowments
(Chapter: What The Messenger Of Allah Left Behind When He Died)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3594.
حضرت عمرو بن حارث ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی وفات کے وقت نہ کوئی درہم چھوڑا نہ دینار‘ نہ غلام نہ لونڈی‘ البتہ آپ کا سفید خچر جس پر آپ سواری فرمایا کرتے تھے۔ آپ کا اسلحہ اور آپ کی زمین ترکے میں شامل تھے مگر آپ نے انہیں فی سبیل اللہ وقف فرما دیا تھا۔ قتیبہ بن سعید دوسری مرتبہ ”بطور صدقہ“ کے الفاظ بیان کرتے ہیں۔
تشریح:
(1) رسول اللہﷺ نے ساری زندگی جائیداد نہیں بنائی‘ صرف کھایا پیا اور ضرورت واستعمال کی چیزیں رکھیں جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث سے واضح ہورہا ہے۔ ضرورت واستعمال کی چیزوں کے بارے میں بھی آپ نے صراحت فرما دی تھی کہ میری وفات کے بعد وہ چیزیں بیت المال میں چلی جائیں گی اور ان کا مفاد بھی سب مسلمانوں کو ہوگا۔ تمام انبیاء علیہم السلام کا یہی طرز عمل رہا ہے تاکہ کوئی نابکار یہ نہ کہہ سکے کہ انبیاء نے نبوت کا کھڑاک مال اکٹھا کرنے کے رچایا تھا۔ نعوذ باللہ من ذالك۔ اسی اصول کی بنا پر رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد آپ کی متروکہ زمین تقسیم نہیں کی گئی بلکہ بیت المال میں رہی۔ فداہ نفسي وروحي وأبي وأميﷺ۔ (2) اگر وقف کا کوئی ناظم مقرر نہ کیا گیا ہو تو وہ بیت المال میں داخل ہوگا اور حاکم وقت اس کا ناظم ہوگا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3598
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3596
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3624
تمہید کتاب
وقف سے مراد یہ ہے کہ کوئی چیز لوجہ اللہ اپنی ملکیت سے نکال دی جائے لیکن کسی دوسرے کی ملک نہ کی جائے بلکہ اسی طرح بغیر مالک کے چھوڑ دی جائے تاکہ نہ وہ بیچی جاسکے‘ نہ اس کا تبادلہ ہوسکے اور نہ اس میں وراثت جاری ہو۔ وہ قیامت تک اس طرح رہے گی‘ البتہ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی ان لوگوں پر خرچ کی جائے گی جن کے لیے وقف کی گئی ہو‘ مثلاً: مسافر یا رشتہ دار یا فقیر یا طلبہ وغیرہ۔ وقف کرنے والا وقف کا ناظم مقرر کرے گا‘ خواہ اپنے آپ کو کسی اور کو یا حکومت کو یا کسی ادارے کو۔ قرون اولیٰ میں وقف کی بہت سی مثالیں ہیں‘ مثلاً: سیدنا عثمان کا زمین خرید کر مسجد کے لیے وقف کرنا‘ کنواں خرید کر وقف کرنا‘ حضرت عمر کا خیبر والی زمین وقف کرنا وغیرہ۔ اس سے اسلامی ریاست کا بوجھ کم ہوتا ہے اور اسے استحکام ملتا ہے کیونکہ اس کی آمدنی سے بہت سارے لوگوں کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں۔دور ِحاضر میں مادیت پرستی کا رجحان بڑھ گیا ہے اور سیم وزر کی محبت لوگوں کے دلوںمیں پیوست ہوچکی ہے اور دوسری طرف حکومتیں بھی فلاح وبہبود کے کاموں سے دلچسپی نہیں رکھتیں۔ بالخصوص دینی ادارے اور مساجد حکومتی سرپرستی سے محروم ہوچکے ہیں۔ غیر معقول مشاہروں کی وجہ سے قابل اور ذہین لوگ مساجد ور مدارس سے اعراض کرنے لگے ہیں۔ دوسری طرف حکومتی اداروں میں پرکشش مراعات اپنی طرف مائل کررہی ہیں۔ ایسے حالات میں جہاں اہل علم کو اللہ پر بھروسا کرنا چاہیے وہاں اہل علم ثروت اور مال دار لوگوں کا اس کار خیر میں آگے پڑھنا چاہیے اور اپنی جائیدادوں کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور فی سبیل اللہ وقف کرنا چاہیے۔ یہ ایسی نیکی ہے جو رہتی دنیا تک باقی رہے گی۔ یہ آخرت کا زادِراہ ہے۔ جتنا زیادہ ہوگا سفر آخرت اسی قدر آسان ہوگا۔ امورِ دین میں نصرت سے اللہ کی مدد نصیب ہوگی۔ حیرت ناک بات یہ ہے کہ جھوٹے نبی قادیانی کے پیروکار اپنے جھوٹ کو پھیلانے کے لیے اپنی جائیدادوں اور آمدنیوں میں سے ایک خاص حصہ وقف کرجاتے ہیں لیکن اہل اسلام ہیں کہ انہیں اپنے دین کے دفاع کی ذرا فکر نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت نصیب فرمائے۔ آمین۔
حضرت عمرو بن حارث ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی وفات کے وقت نہ کوئی درہم چھوڑا نہ دینار‘ نہ غلام نہ لونڈی‘ البتہ آپ کا سفید خچر جس پر آپ سواری فرمایا کرتے تھے۔ آپ کا اسلحہ اور آپ کی زمین ترکے میں شامل تھے مگر آپ نے انہیں فی سبیل اللہ وقف فرما دیا تھا۔ قتیبہ بن سعید دوسری مرتبہ ”بطور صدقہ“ کے الفاظ بیان کرتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہﷺ نے ساری زندگی جائیداد نہیں بنائی‘ صرف کھایا پیا اور ضرورت واستعمال کی چیزیں رکھیں جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث سے واضح ہورہا ہے۔ ضرورت واستعمال کی چیزوں کے بارے میں بھی آپ نے صراحت فرما دی تھی کہ میری وفات کے بعد وہ چیزیں بیت المال میں چلی جائیں گی اور ان کا مفاد بھی سب مسلمانوں کو ہوگا۔ تمام انبیاء علیہم السلام کا یہی طرز عمل رہا ہے تاکہ کوئی نابکار یہ نہ کہہ سکے کہ انبیاء نے نبوت کا کھڑاک مال اکٹھا کرنے کے رچایا تھا۔ نعوذ باللہ من ذالك۔ اسی اصول کی بنا پر رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد آپ کی متروکہ زمین تقسیم نہیں کی گئی بلکہ بیت المال میں رہی۔ فداہ نفسي وروحي وأبي وأميﷺ۔ (2) اگر وقف کا کوئی ناظم مقرر نہ کیا گیا ہو تو وہ بیت المال میں داخل ہوگا اور حاکم وقت اس کا ناظم ہوگا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عمرو بن حارث رضی الله عنہ کہتے ہیں (رسول اللہ ﷺ انتقال فرما گئے) اور انتقال کے وقت رسول اللہ ﷺ نے سوائے اپنے سفید خچر کے جس پر سوار ہوا کرتے تھے اور اپنے ہتھیار کے اور زمین کے جسے اللہ کے راستہ میں دے دیا تھا کچھ نہ چھوڑا تھا نہ دینار نہ درہم نہ غلام نہ لونڈی، (مصنف) کہتے ہیں (میرے استاذ) قتیبہ نے دوسری بار یہ بتایا کہ زمین کو صدقہ کر دیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Amr bin Al-Harith said: "The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) did not leave behind a Dinar nor a Dirham, or any slave, male or female; except his white mule which he used to ride, his weapon and some land which he left to be used for the cause of Allah." (One of the narrators) Qutaibah said on one occasion: "In charity.