باب: وقف کی دستاویز کیسے لکھی جائے؟ نیز ابن عمر کی حدیث کی بابت ابن عون پر اختللاف کا ذکر
)
Sunan-nasai:
The Book of Endowments
(Chapter: Endowments: How The Endowment Is To Be Recorded, And Mentioning The Differences Reported From Ibn 'A)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3602.
حضرت انس ؓ سے راویت ہے کہ جب یہ آیت اتری: ﴿لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ﴾ ”تم ہر گز نیکی حاصل نہ کرسکو گے حتیٰ کہ وہ چیز خرچ کرو جسے تم بہت پسند کرتے ہو۔“ حضرت ابوطلحہ ؓ نے فرمایا: ہمارا رب تعالیٰ ہم سے ہمارے مال طلب فرماتا ہے۔ اے اللہ کے رسول! میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنی زمین اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنے کے لیے وقف کردی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم اسے اپنے رشتے داروں حسان بن ثابت اور ابی بن کعب میں تقسیم کردو۔“
تشریح:
(1) ”اپنی زمین“ دراصل یہ بیرحاء نامی باغ تھا جو مسجد نبوی کے سامنے شمال کی جانب تھا۔ بہت زرخیز اور گھنا تھا۔ (2) ”تقسیم کردو“ معلوم ہوا کہ یہ مشہور معنیٰ میں وقف نہیں تھا ورنہ کسی کو مالک نہ بناتے‘ البتہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ابتدئی الفاظ: جَعَلْتُ أَرْضيَ لِلّٰہِ وقف پر دلالت کرتے ہیں۔ شاید ان الفاظ کی بنا پر ہی اس راویت کو ”وقف“ کے باب میں لایا گیا ہے۔ ممکن ہے رسول اللہ ﷺ نے وقف کے بجائے تقسیم کو مناسب خیال فرمایا ہو‘ لہٰذا یہ حکم فرمایا۔ (3) اقرباء میں سے سب سے زیادہ قرابت دار کو دینا واجب نہیں بلکہ جسے مناسب ہو اسے دے دیا جائے۔ (4) آدمی اپنے باغ کے گرد چار دیواری بنا سکتا ہے۔ نیک اور اہل علم لوگوں کا باغ میں تفریح کرنے اور اس کا پانی اور پھل استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ باغ مالک کے لیے نیکیاں شمار ہوں گی۔ (5) آدمی مرض الموت میں نہ ہو تو ثلث مال سے زائد کی وصیت کرسکتا ہے نبی اکرم ﷺ نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے یہ نہیں پوچھا کہ کتنے مال کا صدقہ کیا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3606
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3604
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3632
تمہید کتاب
وقف سے مراد یہ ہے کہ کوئی چیز لوجہ اللہ اپنی ملکیت سے نکال دی جائے لیکن کسی دوسرے کی ملک نہ کی جائے بلکہ اسی طرح بغیر مالک کے چھوڑ دی جائے تاکہ نہ وہ بیچی جاسکے‘ نہ اس کا تبادلہ ہوسکے اور نہ اس میں وراثت جاری ہو۔ وہ قیامت تک اس طرح رہے گی‘ البتہ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی ان لوگوں پر خرچ کی جائے گی جن کے لیے وقف کی گئی ہو‘ مثلاً: مسافر یا رشتہ دار یا فقیر یا طلبہ وغیرہ۔ وقف کرنے والا وقف کا ناظم مقرر کرے گا‘ خواہ اپنے آپ کو کسی اور کو یا حکومت کو یا کسی ادارے کو۔ قرون اولیٰ میں وقف کی بہت سی مثالیں ہیں‘ مثلاً: سیدنا عثمان کا زمین خرید کر مسجد کے لیے وقف کرنا‘ کنواں خرید کر وقف کرنا‘ حضرت عمر کا خیبر والی زمین وقف کرنا وغیرہ۔ اس سے اسلامی ریاست کا بوجھ کم ہوتا ہے اور اسے استحکام ملتا ہے کیونکہ اس کی آمدنی سے بہت سارے لوگوں کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں۔دور ِحاضر میں مادیت پرستی کا رجحان بڑھ گیا ہے اور سیم وزر کی محبت لوگوں کے دلوںمیں پیوست ہوچکی ہے اور دوسری طرف حکومتیں بھی فلاح وبہبود کے کاموں سے دلچسپی نہیں رکھتیں۔ بالخصوص دینی ادارے اور مساجد حکومتی سرپرستی سے محروم ہوچکے ہیں۔ غیر معقول مشاہروں کی وجہ سے قابل اور ذہین لوگ مساجد ور مدارس سے اعراض کرنے لگے ہیں۔ دوسری طرف حکومتی اداروں میں پرکشش مراعات اپنی طرف مائل کررہی ہیں۔ ایسے حالات میں جہاں اہل علم کو اللہ پر بھروسا کرنا چاہیے وہاں اہل علم ثروت اور مال دار لوگوں کا اس کار خیر میں آگے پڑھنا چاہیے اور اپنی جائیدادوں کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور فی سبیل اللہ وقف کرنا چاہیے۔ یہ ایسی نیکی ہے جو رہتی دنیا تک باقی رہے گی۔ یہ آخرت کا زادِراہ ہے۔ جتنا زیادہ ہوگا سفر آخرت اسی قدر آسان ہوگا۔ امورِ دین میں نصرت سے اللہ کی مدد نصیب ہوگی۔ حیرت ناک بات یہ ہے کہ جھوٹے نبی قادیانی کے پیروکار اپنے جھوٹ کو پھیلانے کے لیے اپنی جائیدادوں اور آمدنیوں میں سے ایک خاص حصہ وقف کرجاتے ہیں لیکن اہل اسلام ہیں کہ انہیں اپنے دین کے دفاع کی ذرا فکر نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت نصیب فرمائے۔ آمین۔
حضرت انس ؓ سے راویت ہے کہ جب یہ آیت اتری: ﴿لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ﴾ ”تم ہر گز نیکی حاصل نہ کرسکو گے حتیٰ کہ وہ چیز خرچ کرو جسے تم بہت پسند کرتے ہو۔“ حضرت ابوطلحہ ؓ نے فرمایا: ہمارا رب تعالیٰ ہم سے ہمارے مال طلب فرماتا ہے۔ اے اللہ کے رسول! میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنی زمین اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنے کے لیے وقف کردی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم اسے اپنے رشتے داروں حسان بن ثابت اور ابی بن کعب میں تقسیم کردو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”اپنی زمین“ دراصل یہ بیرحاء نامی باغ تھا جو مسجد نبوی کے سامنے شمال کی جانب تھا۔ بہت زرخیز اور گھنا تھا۔ (2) ”تقسیم کردو“ معلوم ہوا کہ یہ مشہور معنیٰ میں وقف نہیں تھا ورنہ کسی کو مالک نہ بناتے‘ البتہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ابتدئی الفاظ: جَعَلْتُ أَرْضيَ لِلّٰہِ وقف پر دلالت کرتے ہیں۔ شاید ان الفاظ کی بنا پر ہی اس راویت کو ”وقف“ کے باب میں لایا گیا ہے۔ ممکن ہے رسول اللہ ﷺ نے وقف کے بجائے تقسیم کو مناسب خیال فرمایا ہو‘ لہٰذا یہ حکم فرمایا۔ (3) اقرباء میں سے سب سے زیادہ قرابت دار کو دینا واجب نہیں بلکہ جسے مناسب ہو اسے دے دیا جائے۔ (4) آدمی اپنے باغ کے گرد چار دیواری بنا سکتا ہے۔ نیک اور اہل علم لوگوں کا باغ میں تفریح کرنے اور اس کا پانی اور پھل استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ باغ مالک کے لیے نیکیاں شمار ہوں گی۔ (5) آدمی مرض الموت میں نہ ہو تو ثلث مال سے زائد کی وصیت کرسکتا ہے نبی اکرم ﷺ نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے یہ نہیں پوچھا کہ کتنے مال کا صدقہ کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت «لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ»”تم «بِر» (بھلائی) کو حاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ تم اس میں سے خرچ نہ کرو جسے تم پسند کرتے ہو۔“ (آل عمران: ۹۲) نازل ہوئی تو ابوطلحہ نے کہا: اللہ تعالیٰ ہم سے ہمارے اچھے مال میں سے مانگتا ہے، تو اللہ کے رسول! میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے اپنی زمین اللہ کی راہ میں وقف کی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس وقف کو اپنے قرابت داروں: حسان بن ثابت اور ابی بن کعب کے لیے کر دو۔“ (کہ وہ لوگ اس زمین کو اپنے تصرف میں لائیں اور فائدہ اٹھائیں)
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Anas said: "When this Verse was revealed -'By no means shall you attain Al Birr (piety, righteousness--here it means Allah's reward, i.e. Paradise), unless you spend (in Allah's cause) of that which you love'- Abu Talha said: 'Our Lord will ask us about our wealth. I adjure you, O Messenger of Allah! I am giving my land to Allah.' The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) said: 'Make it for your relatives, Hassan bin Thabit and Ubayy bin Ka'b.