Sunan-nasai:
The Book of Endowments
(Chapter: Endowment Benefiting Everyone)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3604.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! مجھے ایسا مال حاصل ہوا ہے کہ اس جیسا کبھی حاصل نہیں ہوا۔ میرے پاس سو غلام تھے۔ میں نے ان کے عوض خیبر کے علاقے میں سو حصے زمین خرید لی۔ میرا خیال ہے کہ میں اسے صدقہ کرکے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کروں۔ آپ نے فرمایا: ”اصل زمین وقف کردو اور پھل صدقہ کردو۔“
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3608
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3606
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3634
تمہید کتاب
وقف سے مراد یہ ہے کہ کوئی چیز لوجہ اللہ اپنی ملکیت سے نکال دی جائے لیکن کسی دوسرے کی ملک نہ کی جائے بلکہ اسی طرح بغیر مالک کے چھوڑ دی جائے تاکہ نہ وہ بیچی جاسکے‘ نہ اس کا تبادلہ ہوسکے اور نہ اس میں وراثت جاری ہو۔ وہ قیامت تک اس طرح رہے گی‘ البتہ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی ان لوگوں پر خرچ کی جائے گی جن کے لیے وقف کی گئی ہو‘ مثلاً: مسافر یا رشتہ دار یا فقیر یا طلبہ وغیرہ۔ وقف کرنے والا وقف کا ناظم مقرر کرے گا‘ خواہ اپنے آپ کو کسی اور کو یا حکومت کو یا کسی ادارے کو۔ قرون اولیٰ میں وقف کی بہت سی مثالیں ہیں‘ مثلاً: سیدنا عثمان کا زمین خرید کر مسجد کے لیے وقف کرنا‘ کنواں خرید کر وقف کرنا‘ حضرت عمر کا خیبر والی زمین وقف کرنا وغیرہ۔ اس سے اسلامی ریاست کا بوجھ کم ہوتا ہے اور اسے استحکام ملتا ہے کیونکہ اس کی آمدنی سے بہت سارے لوگوں کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں۔دور ِحاضر میں مادیت پرستی کا رجحان بڑھ گیا ہے اور سیم وزر کی محبت لوگوں کے دلوںمیں پیوست ہوچکی ہے اور دوسری طرف حکومتیں بھی فلاح وبہبود کے کاموں سے دلچسپی نہیں رکھتیں۔ بالخصوص دینی ادارے اور مساجد حکومتی سرپرستی سے محروم ہوچکے ہیں۔ غیر معقول مشاہروں کی وجہ سے قابل اور ذہین لوگ مساجد ور مدارس سے اعراض کرنے لگے ہیں۔ دوسری طرف حکومتی اداروں میں پرکشش مراعات اپنی طرف مائل کررہی ہیں۔ ایسے حالات میں جہاں اہل علم کو اللہ پر بھروسا کرنا چاہیے وہاں اہل علم ثروت اور مال دار لوگوں کا اس کار خیر میں آگے پڑھنا چاہیے اور اپنی جائیدادوں کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور فی سبیل اللہ وقف کرنا چاہیے۔ یہ ایسی نیکی ہے جو رہتی دنیا تک باقی رہے گی۔ یہ آخرت کا زادِراہ ہے۔ جتنا زیادہ ہوگا سفر آخرت اسی قدر آسان ہوگا۔ امورِ دین میں نصرت سے اللہ کی مدد نصیب ہوگی۔ حیرت ناک بات یہ ہے کہ جھوٹے نبی قادیانی کے پیروکار اپنے جھوٹ کو پھیلانے کے لیے اپنی جائیدادوں اور آمدنیوں میں سے ایک خاص حصہ وقف کرجاتے ہیں لیکن اہل اسلام ہیں کہ انہیں اپنے دین کے دفاع کی ذرا فکر نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت نصیب فرمائے۔ آمین۔
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! مجھے ایسا مال حاصل ہوا ہے کہ اس جیسا کبھی حاصل نہیں ہوا۔ میرے پاس سو غلام تھے۔ میں نے ان کے عوض خیبر کے علاقے میں سو حصے زمین خرید لی۔ میرا خیال ہے کہ میں اسے صدقہ کرکے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کروں۔ آپ نے فرمایا: ”اصل زمین وقف کردو اور پھل صدقہ کردو۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عمر ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہا: اللہ کے رسول! مجھے ایسا اچھا مال ہاتھ لگا ہے کہ اس جیسا مال مجھے کبھی نہیں ملا تھا۔ میرے پاس سو «راس» (جانور) تھے تو میں نے انہیں خیبر والوں کو دے کر سو حصے خرید لیے اور میرا ارادہ ہے کہ انہیں اللہ عزوجل کی راہ میں دے کر اس کی قرابت حاصل کر لوں۔ آپ نے فرمایا: ”(اگر تمہارا ایسا ارادہ ہے تو) اصل (یعنی زمین) کو روک لو اور پھل تقسیم کر دو.“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Muhammad bin 'Ali bin Maimun informed us, he said: "Muhammad -he is, Ibn Yusuf- narrated to us, he said: 'Sufyan narrated to us from Ibn Abi Najih, from Tawus, from a man, from Zaid bin Thabit that the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) ruled that the Ruqba belongs to the one to whom it is given.