Sunan-nasai:
The Book of Wills
(Chapter: Did The Prophet Make A Will?)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3620.
حضرت طلحہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ سے پوچھا: کیا رسول اللہ ﷺ نے کوئی وصیت فرمائی تھی؟ انہوں نے فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا: پھر مسلمانوں پر وصیت کرنا کیوں ضروری قراردیا گیا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ آپ نے کتاب اللہ پر عمل کرنے کی وصیت فرمائی۔
تشریح:
(1) ”نہیں۔“ یعنی کوئی مال وصیت نہیں فرمائی کیونکہ آپ کا کل ترکہ وقف تھا جو بیت المال میں جمع ہوا۔ یا اس کی وصیت کی نفی ہے جو بعض بے دین لوگوں نے مشہور کی تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں خلاف کی وصیت کی تھی۔ (2) ”مسلمانوں پر وصیت“ شاید ان کا اشارہ: ﴿كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ… الخ﴾ کی طرف ہو‘ حالانکہ یہ آیت تو منسوخ ہے۔ یا ممکن ہے ان احادیث میں بھی وصیت کے فرض ہونے کی صراحت نہیں بلکہ وصیت میں تاخیر سے روکا گیا ہے کہ اگر کوئی وصیت کرنا چاہتا ہے تو تاخیر نہ کرے۔ (3) ”کتاب اللہ… کی وصیت فرمائی“ اور یہی آپ کا ساری زندگی مطلوب ومقصود رہا‘ لہٰذا وصیت بھی اسی سے متعلق فرمائی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3624
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3622
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3650
تمہید کتاب
وصیت سے مراد وہ باتیں ہیں جو کوئی شخص اپنی وفات سے مابعد کے لیے اپنے مال واولاد کے متعلق کرے۔ وصیت کی دوقسمیں ہیں: مالی وصیت۔ دیگر امور سے متعلق وصیت۔ وراثت کے احکام نازل ہونے سے پہلے مال کے بارے میں وصیت کرنا فرض تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہر وارث کو اس کا مقرر حصہ دے دیا اور رسول اللہﷺ نے اس کی وضاحت فرمادی تو وصیت کرنے کا وجوب ساقط ہوگیا‘ تاہم کسی ناداررشتہ دار کو یا صدقہ کرنے کی وصیت سے منع کردیا گیا ہے۔ اب ایک تہائی مال کے بارے میں وصیت واجب العمل ہوگی۔ اس سے زائد ورثاء کی مرضی پر موقوف ہے۔ مالی وصیت کسی وراثت کے بارے میں نہیں کی جاسکتی‘ یعنی وصیت کی وجہ سے وراث کا حصہ کم ہوسکتا ہے نہ زیادہ۔دیگر امور کے بارے میں انسان کوئی وصیت کرنا چاہتا ہے تو اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجود ہونی چاہیے اور اس بارے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے‘ مثلاً: کوئی شخص کاروباری معاملات یا لین دین کے بارے میں معلومات کرنا چاہتا ہے تو گواہوں کی موجودگی میں یا تحریری طور پر وصیت کرے۔ کوئی شخص اگر سمجھتا ہے کہ اس کے ورثاء اس کے فوت ہونے پر بدعات وخرافات یا غیر شرعی امور کے مرتکب ہوں گے یا خواتین نوحہ کریں گی یا اس کی اولاد کو دین سے برگشتہ کیا جائے گا تو ایسے اجمور کے بارے میں وصیت کرنا ضروری ہے تاکہ انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں براءی الذمہ ہوسکے۔ کسی کو وراثت سے محروم کرنا‘ کسی پر ظلم کرنا یا قطعی رحمی کی وصیت کرنا حرام ہے جس کا وبال وفات کے بعد انسان کو بھگتنا پڑے گا‘ نیز ورثاء کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی ظالمانہ یا غیر شرعی وصیت کو نافذ نہ کریں۔
حضرت طلحہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ سے پوچھا: کیا رسول اللہ ﷺ نے کوئی وصیت فرمائی تھی؟ انہوں نے فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا: پھر مسلمانوں پر وصیت کرنا کیوں ضروری قراردیا گیا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ آپ نے کتاب اللہ پر عمل کرنے کی وصیت فرمائی۔
حدیث حاشیہ:
(1) ”نہیں۔“ یعنی کوئی مال وصیت نہیں فرمائی کیونکہ آپ کا کل ترکہ وقف تھا جو بیت المال میں جمع ہوا۔ یا اس کی وصیت کی نفی ہے جو بعض بے دین لوگوں نے مشہور کی تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں خلاف کی وصیت کی تھی۔ (2) ”مسلمانوں پر وصیت“ شاید ان کا اشارہ: ﴿كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ… الخ﴾ کی طرف ہو‘ حالانکہ یہ آیت تو منسوخ ہے۔ یا ممکن ہے ان احادیث میں بھی وصیت کے فرض ہونے کی صراحت نہیں بلکہ وصیت میں تاخیر سے روکا گیا ہے کہ اگر کوئی وصیت کرنا چاہتا ہے تو تاخیر نہ کرے۔ (3) ”کتاب اللہ… کی وصیت فرمائی“ اور یہی آپ کا ساری زندگی مطلوب ومقصود رہا‘ لہٰذا وصیت بھی اسی سے متعلق فرمائی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
طلحہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن ابی اوفی سے پوچھا: کیا رسول اللہ ﷺ نے وصیت کی تھی؟ کہا: نہیں،۱؎ میں نے کہا: پھر مسلمانوں پر وصیت کیسے فرض کر دی؟ کہا: آپ نے اللہ کی کتاب سے وصیت کو ضروری قرار دیا ہے.۲؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی دنیا کے متعلق کوئی وصیت نہیں کی کیونکہ آپ نے ایسا کوئی مال چھوڑا ہی نہیں تھا جس میں وصیت کرنے کی ضرورت پیش آتی، رہی مطلق وصیت تو آپ نے کئی باتوں کی وصیت فرمائی ہے۔ ۲؎: اشارہ ہے آیتکریمہ: «كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالأقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ» کی طرف، یعنی اس آیت کی بنا پر آپ نے وصیت کو فرض قرار دیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Talha (RA) said: "I asked Ibn Abi Awfa: 'Did the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) leave a will?' He said: 'No.' I said: 'How come it is prescribed for the Muslims to make wills?' He said: 'He left instructions urging the Muslims to adhere to the Book of Allah.