Sunan-nasai:
The Book of Wills
(Chapter: The Virtue Of Charity Given On Behalf Of The Deceased)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3656.
حضرت سعد بن عبادہؓ سے مروی ہے کہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا :میری والدہ فوت ہو گئی ہے۔ ان کے ذمے ایک نذر تھی۔ اگر میں ان کی طرف سے غلام آزاد کر دوں تو کیا ان سے (نذر کی) ادائیگی ہو جائے گی؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم اپنی والدہ کی طرف سے غلام آزاد کر سکتے ہو۔
تشریح:
(1) اس روایت سے باقی روایات جن میں مطلق نذر کا ذکر ہے کا ابہام دور ہو جاتا ہے وہ نذر غلام آزاد کرنا تھی۔ بعض نے کہا ہے کہ ممکن ہے نذر کچھ اورہو لیکن چونکہ نذر قسم کے برابر ہوتی ہے اور قسم کا کفارہ غلام آزاد کرنا ہے اس لئے نذر کی جگہ غلام آزاد کیا گیا ہو۔ لیکن پہلی بات راجح معلوم ہوتی ہے۔ (2) پچھلی روایات میں صرف وصیت کا ذکر تھا۔ اس رویت میں نذر کا ذکر ہے۔ ممکن ہے دونوں باتیں ہوں۔ نذر بھی پوری نہ کر سکی ہو اور وصت بھی نہ کر سکی ہو۔ حضرت سعدؓ نے دونوں کام کر دیے۔ رضي اللہ عنه وأرضاہ."
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3660
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3658
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3686
تمہید کتاب
وصیت سے مراد وہ باتیں ہیں جو کوئی شخص اپنی وفات سے مابعد کے لیے اپنے مال واولاد کے متعلق کرے۔ وصیت کی دوقسمیں ہیں: مالی وصیت۔ دیگر امور سے متعلق وصیت۔ وراثت کے احکام نازل ہونے سے پہلے مال کے بارے میں وصیت کرنا فرض تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہر وارث کو اس کا مقرر حصہ دے دیا اور رسول اللہﷺ نے اس کی وضاحت فرمادی تو وصیت کرنے کا وجوب ساقط ہوگیا‘ تاہم کسی ناداررشتہ دار کو یا صدقہ کرنے کی وصیت سے منع کردیا گیا ہے۔ اب ایک تہائی مال کے بارے میں وصیت واجب العمل ہوگی۔ اس سے زائد ورثاء کی مرضی پر موقوف ہے۔ مالی وصیت کسی وراثت کے بارے میں نہیں کی جاسکتی‘ یعنی وصیت کی وجہ سے وراث کا حصہ کم ہوسکتا ہے نہ زیادہ۔دیگر امور کے بارے میں انسان کوئی وصیت کرنا چاہتا ہے تو اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجود ہونی چاہیے اور اس بارے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے‘ مثلاً: کوئی شخص کاروباری معاملات یا لین دین کے بارے میں معلومات کرنا چاہتا ہے تو گواہوں کی موجودگی میں یا تحریری طور پر وصیت کرے۔ کوئی شخص اگر سمجھتا ہے کہ اس کے ورثاء اس کے فوت ہونے پر بدعات وخرافات یا غیر شرعی امور کے مرتکب ہوں گے یا خواتین نوحہ کریں گی یا اس کی اولاد کو دین سے برگشتہ کیا جائے گا تو ایسے اجمور کے بارے میں وصیت کرنا ضروری ہے تاکہ انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں براءی الذمہ ہوسکے۔ کسی کو وراثت سے محروم کرنا‘ کسی پر ظلم کرنا یا قطعی رحمی کی وصیت کرنا حرام ہے جس کا وبال وفات کے بعد انسان کو بھگتنا پڑے گا‘ نیز ورثاء کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی ظالمانہ یا غیر شرعی وصیت کو نافذ نہ کریں۔
حضرت سعد بن عبادہؓ سے مروی ہے کہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا :میری والدہ فوت ہو گئی ہے۔ ان کے ذمے ایک نذر تھی۔ اگر میں ان کی طرف سے غلام آزاد کر دوں تو کیا ان سے (نذر کی) ادائیگی ہو جائے گی؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم اپنی والدہ کی طرف سے غلام آزاد کر سکتے ہو۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس روایت سے باقی روایات جن میں مطلق نذر کا ذکر ہے کا ابہام دور ہو جاتا ہے وہ نذر غلام آزاد کرنا تھی۔ بعض نے کہا ہے کہ ممکن ہے نذر کچھ اورہو لیکن چونکہ نذر قسم کے برابر ہوتی ہے اور قسم کا کفارہ غلام آزاد کرنا ہے اس لئے نذر کی جگہ غلام آزاد کیا گیا ہو۔ لیکن پہلی بات راجح معلوم ہوتی ہے۔ (2) پچھلی روایات میں صرف وصیت کا ذکر تھا۔ اس رویت میں نذر کا ذکر ہے۔ ممکن ہے دونوں باتیں ہوں۔ نذر بھی پوری نہ کر سکی ہو اور وصت بھی نہ کر سکی ہو۔ حضرت سعدؓ نے دونوں کام کر دیے۔ رضي اللہ عنه وأرضاہ."
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سعد بن عبادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر کہا: میری ماں مر چکی ہیں اور ان کے ذمہ ایک نذر ہے، اگر میں ان کی طرف سے (ایک غلام) آزاد کر دوں تو کیا یہ ان کی طرف سے پوری ہو جائے گی؟ آپ نے فرمایا: ”(ہاں) اپنی ماں کی طرف سے غلام آزاد کر دو.“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : سعد بن عبادہ کی ماں نے غلام آزاد کرنے کی نذر مانی تھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Sa'd bin 'Ubadah that he came to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) and said: "My mother has died and she had a vow to fulfill. Will it suffice if I free a slave on her behalf?" He said: "Free a slave on behalf of your mother.