باب: جو شخص (وصیت کے نتیجے میں) یتیم کے مال کی دیکھ بھال کرے‘ اس کا اس میں کیا حق ہے؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Wills
(Chapter: What The Guardian Is Entitled To Of An Orphan's Property If He Takes Care Of It)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3668.
حضرت عمروبن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہا: میں فقیر ہوں۔ میرے پاس کچھ نہیں‘ ہاں میرے پاس ایک یتیم ہے۔ (جس کے مال کا میں سرپرست ہوں۔) آپ نے فرمایا: ”تو اپنے یتیم کے مال سے کھا سکتا ہے لیکن نہ تو فضول خرچی اور اسراف ہو‘ نہ (اس کا مال) ضائع کرنے والا اور نہ (اس یتیم کے مال سے) کوئی جمع پونجی بنانے والا ہو۔“
تشریح:
(1) گویا محتاج شخص یتیم کے مال سے نگرانی اور انتظام کی اجرت لے سکتا ہے اور وہ بھی انتہائی مناسب۔ لیکن جو شخص کھاتا پیتا ہے اس کے لیے اپنی نگرانی وغیرہ کا معاوضہ نہ لینا ہی بہتر ہے۔ (2) یتیم کے مال سے تجارت اگر اس نیت سے کرے کہ ا س سے حاصل شدہ منافع خود حاصل کرلے تو یہ تجارت جائز نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3672
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3670
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3698
تمہید کتاب
وصیت سے مراد وہ باتیں ہیں جو کوئی شخص اپنی وفات سے مابعد کے لیے اپنے مال واولاد کے متعلق کرے۔ وصیت کی دوقسمیں ہیں: مالی وصیت۔ دیگر امور سے متعلق وصیت۔ وراثت کے احکام نازل ہونے سے پہلے مال کے بارے میں وصیت کرنا فرض تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہر وارث کو اس کا مقرر حصہ دے دیا اور رسول اللہﷺ نے اس کی وضاحت فرمادی تو وصیت کرنے کا وجوب ساقط ہوگیا‘ تاہم کسی ناداررشتہ دار کو یا صدقہ کرنے کی وصیت سے منع کردیا گیا ہے۔ اب ایک تہائی مال کے بارے میں وصیت واجب العمل ہوگی۔ اس سے زائد ورثاء کی مرضی پر موقوف ہے۔ مالی وصیت کسی وراثت کے بارے میں نہیں کی جاسکتی‘ یعنی وصیت کی وجہ سے وراث کا حصہ کم ہوسکتا ہے نہ زیادہ۔دیگر امور کے بارے میں انسان کوئی وصیت کرنا چاہتا ہے تو اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجود ہونی چاہیے اور اس بارے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے‘ مثلاً: کوئی شخص کاروباری معاملات یا لین دین کے بارے میں معلومات کرنا چاہتا ہے تو گواہوں کی موجودگی میں یا تحریری طور پر وصیت کرے۔ کوئی شخص اگر سمجھتا ہے کہ اس کے ورثاء اس کے فوت ہونے پر بدعات وخرافات یا غیر شرعی امور کے مرتکب ہوں گے یا خواتین نوحہ کریں گی یا اس کی اولاد کو دین سے برگشتہ کیا جائے گا تو ایسے اجمور کے بارے میں وصیت کرنا ضروری ہے تاکہ انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں براءی الذمہ ہوسکے۔ کسی کو وراثت سے محروم کرنا‘ کسی پر ظلم کرنا یا قطعی رحمی کی وصیت کرنا حرام ہے جس کا وبال وفات کے بعد انسان کو بھگتنا پڑے گا‘ نیز ورثاء کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی ظالمانہ یا غیر شرعی وصیت کو نافذ نہ کریں۔
حضرت عمروبن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہا: میں فقیر ہوں۔ میرے پاس کچھ نہیں‘ ہاں میرے پاس ایک یتیم ہے۔ (جس کے مال کا میں سرپرست ہوں۔) آپ نے فرمایا: ”تو اپنے یتیم کے مال سے کھا سکتا ہے لیکن نہ تو فضول خرچی اور اسراف ہو‘ نہ (اس کا مال) ضائع کرنے والا اور نہ (اس یتیم کے مال سے) کوئی جمع پونجی بنانے والا ہو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) گویا محتاج شخص یتیم کے مال سے نگرانی اور انتظام کی اجرت لے سکتا ہے اور وہ بھی انتہائی مناسب۔ لیکن جو شخص کھاتا پیتا ہے اس کے لیے اپنی نگرانی وغیرہ کا معاوضہ نہ لینا ہی بہتر ہے۔ (2) یتیم کے مال سے تجارت اگر اس نیت سے کرے کہ ا س سے حاصل شدہ منافع خود حاصل کرلے تو یہ تجارت جائز نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا: میں محتاج و فقیر ہوں، میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے اور میری سرپرستی میں ایک یتیم ہے۔ آپ نے فرمایا: ”یتیم کے مال سے کھا لیا کرو (لیکن دیکھو) فضول خرچی اور اسراف مت کرنا اور نہ ہی یتیم کا مال لے لے کر اپنا مال بڑھانا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Amr bin Shu'aib, from his father, from his grandfather, that a man came to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) and said: "I am poor and I do not have anything, and I have an orphan (under my care)." He said: "Eat from the property of your orphan without being extravagant, wasteful or keeping it as capital for yourself.