باب: جو شخص (وصیت کے نتیجے میں) یتیم کے مال کی دیکھ بھال کرے‘ اس کا اس میں کیا حق ہے؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Wills
(Chapter: What The Guardian Is Entitled To Of An Orphan's Property If He Takes Care Of It)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3669.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے‘ انہوں نے فرمایا: جب یہ آیت اتری: ﴿وَلا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ”اور تم یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر انتہائی اچھے انداز سے۔“ اور ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا﴾ ”جو لوگ ظلم کے ساتھ ناحق یتیموں کا مال کھاتے ہیں…الخ“ تو لوگوں نے یتیموں کے مال کھانے اور پینے سے علیحدگی اختیار کرلی۔ اس سے مسلمانوں کے لیے مشقت پیدا ہوئی‘ چنانچہ انہوں نے ا س کی شکایت رسول اللہ ﷺ سے کی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاردی: ﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَى قُلْ إِصْلاحٌ لَهُمْ خَيْرٌ… لأَعْنَتَكُمْ﴾ ”لوگ آپ سے یتیم بچوں (کے ساتھ رہنے) کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دیجئے: ان کی اصلاح کرنا بہتر ہے۔… (اور اگر اللہ چاہتا تو) تمہیں تکلیف مں ڈال دیتا۔“
تشریح:
محقق کتاب نے اس روایت کو سنداً ضعیف قراردیتے ہوئے لکھا ہے کہ معجم کبیر کی حدیث اس سے کفایت کرتی ہے کیونکہ اس کی سند حسن ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مذکورہ حدیث محقق کتاب کے نزدیک بھی قابل عمل اور قابل حجت ہے‘ نیز دیگر محققین نے بھی شواہد ومتابعات کی بنا پر اس روایت کو قابل حجت قراردیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ‘ شرح سنن النسائي:۳۰/۱۸۱)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3673
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3671
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3699
تمہید کتاب
وصیت سے مراد وہ باتیں ہیں جو کوئی شخص اپنی وفات سے مابعد کے لیے اپنے مال واولاد کے متعلق کرے۔ وصیت کی دوقسمیں ہیں: مالی وصیت۔ دیگر امور سے متعلق وصیت۔ وراثت کے احکام نازل ہونے سے پہلے مال کے بارے میں وصیت کرنا فرض تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہر وارث کو اس کا مقرر حصہ دے دیا اور رسول اللہﷺ نے اس کی وضاحت فرمادی تو وصیت کرنے کا وجوب ساقط ہوگیا‘ تاہم کسی ناداررشتہ دار کو یا صدقہ کرنے کی وصیت سے منع کردیا گیا ہے۔ اب ایک تہائی مال کے بارے میں وصیت واجب العمل ہوگی۔ اس سے زائد ورثاء کی مرضی پر موقوف ہے۔ مالی وصیت کسی وراثت کے بارے میں نہیں کی جاسکتی‘ یعنی وصیت کی وجہ سے وراث کا حصہ کم ہوسکتا ہے نہ زیادہ۔دیگر امور کے بارے میں انسان کوئی وصیت کرنا چاہتا ہے تو اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجود ہونی چاہیے اور اس بارے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے‘ مثلاً: کوئی شخص کاروباری معاملات یا لین دین کے بارے میں معلومات کرنا چاہتا ہے تو گواہوں کی موجودگی میں یا تحریری طور پر وصیت کرے۔ کوئی شخص اگر سمجھتا ہے کہ اس کے ورثاء اس کے فوت ہونے پر بدعات وخرافات یا غیر شرعی امور کے مرتکب ہوں گے یا خواتین نوحہ کریں گی یا اس کی اولاد کو دین سے برگشتہ کیا جائے گا تو ایسے اجمور کے بارے میں وصیت کرنا ضروری ہے تاکہ انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں براءی الذمہ ہوسکے۔ کسی کو وراثت سے محروم کرنا‘ کسی پر ظلم کرنا یا قطعی رحمی کی وصیت کرنا حرام ہے جس کا وبال وفات کے بعد انسان کو بھگتنا پڑے گا‘ نیز ورثاء کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی ظالمانہ یا غیر شرعی وصیت کو نافذ نہ کریں۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے‘ انہوں نے فرمایا: جب یہ آیت اتری: ﴿وَلا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ”اور تم یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر انتہائی اچھے انداز سے۔“ اور ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا﴾ ”جو لوگ ظلم کے ساتھ ناحق یتیموں کا مال کھاتے ہیں…الخ“ تو لوگوں نے یتیموں کے مال کھانے اور پینے سے علیحدگی اختیار کرلی۔ اس سے مسلمانوں کے لیے مشقت پیدا ہوئی‘ چنانچہ انہوں نے ا س کی شکایت رسول اللہ ﷺ سے کی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاردی: ﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَى قُلْ إِصْلاحٌ لَهُمْ خَيْرٌ… لأَعْنَتَكُمْ﴾ ”لوگ آپ سے یتیم بچوں (کے ساتھ رہنے) کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دیجئے: ان کی اصلاح کرنا بہتر ہے۔… (اور اگر اللہ چاہتا تو) تمہیں تکلیف مں ڈال دیتا۔“
حدیث حاشیہ:
محقق کتاب نے اس روایت کو سنداً ضعیف قراردیتے ہوئے لکھا ہے کہ معجم کبیر کی حدیث اس سے کفایت کرتی ہے کیونکہ اس کی سند حسن ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مذکورہ حدیث محقق کتاب کے نزدیک بھی قابل عمل اور قابل حجت ہے‘ نیز دیگر محققین نے بھی شواہد ومتابعات کی بنا پر اس روایت کو قابل حجت قراردیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ‘ شرح سنن النسائي:۳۰/۱۸۱)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت کریمہ: «وَلا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ»”یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر اس طریقے سے جو کہ مستحسن ہو (یہاں تک کہ وہ اپنے سن رشد کو پہنچ جائے)“ (الأنعام: ۱۵۲) اور «إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا»”اور جو لوگ یتیموں کا مال ظلم و زیادتی کر کے کھاتے ہیں (وہ دراصل مال نہیں کھاتے وہ اپنے پیٹوں میں انگارے بھررہے ہیں“ (النساء: ۱۰) نازل ہوئی تو لوگ یتیموں کے مال کے قریب جانے (اور ان کی حفاظت کی ذمہ داریاں سنبھالنے) اور ان کا مال کھانے سے بچنے لگے۔ تو یہ چیز مسلمانوں پر شاق (دشوار) ہو گئی، چنانچہ لوگوں نے نبی اکرم ﷺ سے اس کی شکایت کی جس پر اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ: «وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَى قُلْ إِصْلاحٌ لَهُمْ خَيْرٌ» سے «لأَعْنَتَكُمْ» ”اور تم سے یتیموں کے بارے میں بھی سوال کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئیے کہ ان کی خیر خواہی بہتر ہے اگر تم ان کا مال اپنے مال میں ملا بھی لو تو وہ تمہارے بھائی ہیں۔ بد نیت اور نیک نیت ہر ایک کو اللہ خوب جانتا ہے۔ اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں مشقت میں ڈال دیتا، یقیناً اللہ تعالیٰ غلبہ اور حکمت والا ہے۔“ (البقرہ: ۲۲۰) تک نازل فرمائی۔ ۳؎
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn 'Abbas said: "When these Verses were revealed - 'And come not near to the orphan's property, except to improve it,' and 'Verily, those who unjustly eat up the property of orphans' - the people avoided the property and food of the orphans. That caused hardship to the Muslims and they complained about that to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم). Then Allah revealed: 'And they ask you concerning orphans. Say: The best thing is to work honestly in their property, and if you mix your affairs with theirs, then they are your brothers. And Allah knows him who means mischief (e.g. to swallow their property) from him who means good (e.g. to save their property). And if Allah had wished, He could have put you into difficulties.