باب: جو شخص (وصیت کے نتیجے میں) یتیم کے مال کی دیکھ بھال کرے‘ اس کا اس میں کیا حق ہے؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Wills
(Chapter: What The Guardian Is Entitled To Of An Orphan's Property If He Takes Care Of It)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3670.
حضرت ابن عباس ؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ…﴾ ”یقینا جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں…الخ“ کے بارے میں مروی ہے‘ انہوں نے فرمایا: یتیم جن لوگوں کے زیر سایہ پرورش پا رہے تھے (یہ آیت سن کر) انہوں نے یتیم کا کھانا پینا الگ کردیا حتیٰ کہ برتن بھی۔ لیکن اس سے مسلمانوں کے لیے مشقت پیدا ہوئی‘ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاردی: ﴿وَإِنْ تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ﴾ ”اگر تم یتیموں کے ساتھ مل جل کر رہو تو کوئی حرج نہیں۔ وہ تمہارے (دینی) بھائی بند ہیں۔“ گویا اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ مل کر رہنا جائز قراردے دیا۔
تشریح:
ہر معاشرے میں یتیم بچے‘ اگر ایک دو ہوں‘ تو وہ دوسرے گھر والوں کے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ ان کا کھانا پینا بھی مشترکہ ہی ہوتا ہے۔ اس میں ان کا فائدہ ہے۔ اگر ان کا کھانا پینا الگ ہو تو زیادہ اخراجات آتے ہیں۔ عرب میں بھی ایسے ہی تھا۔ جب یہ آیت اتری تو لوگ ڈر گئے کہ کہیں یتیم بچوں کی کوئی چیز ہمارے پیٹ میں نہ چلی جائے‘ لہٰذا انہوں نے بطور تقویٰ یتیم بچوں کا کھانا پینا الگ کردیا‘ حالانکہ شریعت کا منشا صراحت فرما دی کہ نیت خیرخواہی اور ہمدردی کی ہو تو انہیں اپنے ساتھ رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ اصل مقصد تو یتیموں کا بھلا ہی ہے جیسے بھی ممکن ہو۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3674
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3672
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3700
تمہید کتاب
وصیت سے مراد وہ باتیں ہیں جو کوئی شخص اپنی وفات سے مابعد کے لیے اپنے مال واولاد کے متعلق کرے۔ وصیت کی دوقسمیں ہیں: مالی وصیت۔ دیگر امور سے متعلق وصیت۔ وراثت کے احکام نازل ہونے سے پہلے مال کے بارے میں وصیت کرنا فرض تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہر وارث کو اس کا مقرر حصہ دے دیا اور رسول اللہﷺ نے اس کی وضاحت فرمادی تو وصیت کرنے کا وجوب ساقط ہوگیا‘ تاہم کسی ناداررشتہ دار کو یا صدقہ کرنے کی وصیت سے منع کردیا گیا ہے۔ اب ایک تہائی مال کے بارے میں وصیت واجب العمل ہوگی۔ اس سے زائد ورثاء کی مرضی پر موقوف ہے۔ مالی وصیت کسی وراثت کے بارے میں نہیں کی جاسکتی‘ یعنی وصیت کی وجہ سے وراث کا حصہ کم ہوسکتا ہے نہ زیادہ۔دیگر امور کے بارے میں انسان کوئی وصیت کرنا چاہتا ہے تو اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجود ہونی چاہیے اور اس بارے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے‘ مثلاً: کوئی شخص کاروباری معاملات یا لین دین کے بارے میں معلومات کرنا چاہتا ہے تو گواہوں کی موجودگی میں یا تحریری طور پر وصیت کرے۔ کوئی شخص اگر سمجھتا ہے کہ اس کے ورثاء اس کے فوت ہونے پر بدعات وخرافات یا غیر شرعی امور کے مرتکب ہوں گے یا خواتین نوحہ کریں گی یا اس کی اولاد کو دین سے برگشتہ کیا جائے گا تو ایسے اجمور کے بارے میں وصیت کرنا ضروری ہے تاکہ انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں براءی الذمہ ہوسکے۔ کسی کو وراثت سے محروم کرنا‘ کسی پر ظلم کرنا یا قطعی رحمی کی وصیت کرنا حرام ہے جس کا وبال وفات کے بعد انسان کو بھگتنا پڑے گا‘ نیز ورثاء کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی ظالمانہ یا غیر شرعی وصیت کو نافذ نہ کریں۔
حضرت ابن عباس ؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ…﴾ ”یقینا جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں…الخ“ کے بارے میں مروی ہے‘ انہوں نے فرمایا: یتیم جن لوگوں کے زیر سایہ پرورش پا رہے تھے (یہ آیت سن کر) انہوں نے یتیم کا کھانا پینا الگ کردیا حتیٰ کہ برتن بھی۔ لیکن اس سے مسلمانوں کے لیے مشقت پیدا ہوئی‘ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاردی: ﴿وَإِنْ تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ﴾ ”اگر تم یتیموں کے ساتھ مل جل کر رہو تو کوئی حرج نہیں۔ وہ تمہارے (دینی) بھائی بند ہیں۔“ گویا اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ مل کر رہنا جائز قراردے دیا۔
حدیث حاشیہ:
ہر معاشرے میں یتیم بچے‘ اگر ایک دو ہوں‘ تو وہ دوسرے گھر والوں کے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ ان کا کھانا پینا بھی مشترکہ ہی ہوتا ہے۔ اس میں ان کا فائدہ ہے۔ اگر ان کا کھانا پینا الگ ہو تو زیادہ اخراجات آتے ہیں۔ عرب میں بھی ایسے ہی تھا۔ جب یہ آیت اتری تو لوگ ڈر گئے کہ کہیں یتیم بچوں کی کوئی چیز ہمارے پیٹ میں نہ چلی جائے‘ لہٰذا انہوں نے بطور تقویٰ یتیم بچوں کا کھانا پینا الگ کردیا‘ حالانکہ شریعت کا منشا صراحت فرما دی کہ نیت خیرخواہی اور ہمدردی کی ہو تو انہیں اپنے ساتھ رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ اصل مقصد تو یتیموں کا بھلا ہی ہے جیسے بھی ممکن ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ آیت کریمہ: «إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا» کے سلسلہ میں کہتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری تو جس کی پرورش میں یتیم ہوتا تھا وہ اس کا کھانا پینا اور اس کا برتن الگ کر دیتا تھا لیکن یہ چیز مسلمانوں پر گراں گزری تو اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ: «وَإِنْ تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ» ”اگر ان کو ملا کر رکھو تو وہ تمہارے بھائی ہیں۔“ (البقرہ: ۲۲۰) نازل فرمائی اور یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے ساتھ ملا لینے کو جائز قرار دے دیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn 'Abbas said -concerning the Verse: "Verily, those who unjustly eat up the property of orphans" -A man would have an orphan in his care, and he would keep his food, drink and vessels separate. This caused hardship to the Muslims, so Allah, the Mighty and Sublime, revealed: "And they ask you concerning orphans. Say: The best thing is to work honestly in their property, and if you mix your affairs with theirs, then they are your brothers" (in religion), so it is permissible for you to mix with them.