باب: عطیہ کرنے کے بارے میں حضرت نعمان بن بشیرؓ کی روایت کے ناقلین کے لفظی اختلاف کا بیان
)
Sunan-nasai:
The Book of Presents
(Chapter: Different Versions Of The Report Of Nu'man Bin Bashir Concerning Presents)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3672.
حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے منقول ہے کہ میرے والد نے مجھے ایک غلام بطور عطیہ دیا‘ پھر وہ نبی اکرم ﷺ کو گواہ بنانے کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تم نے اپنے تمام بچوں کو عطیہ دیا ہے؟“ انہوں نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر اسے بھی واپس لے لو۔“ یہ سیاق محمد بن منصور کا ہے۔ (قتیبہ بن سعید بالمعنیٰ بیان کرتے ہیں۔)
تشریح:
(1) باپ اور اولاد کا باہمی رشتہ بہت قریبی ہے۔ اس میں ذرہ بھر خرابی بھی بہت سے مفاسد کا موجب ہے‘ لہٰذا شریعت کی طرف سے ہدایت ہے کہ بچوں میں مساوات سے کام لیا جائے تاکہ کسی کو احساس محرومی نہ ہو۔ صرف ایک بیٹے کو عطیہ دینا دوسرے بیٹوں میں اس بھائی اور باپ کے خلاف نفرت پیدا کرسکتا ہے جس کے نتائج خطرناک ہوسکتے ہیں‘ اس لیے اس سے روک دیا گیا ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ عطیہ دینا ہے تو سب کو دیا جائے۔ ایسی صریح روایت کی موجودگی میں احناف کا یہ کہنا تعجب ہے کہ اولاد میں مساوات کی کوئی ضروری نہیں۔“ (2) یہ مساوات صرف تحفہ اور عطیہ میں ہے۔ باقی رہے نفقات تو اس میں حصہ بقدر جبثہ ہوگا‘ مثلاً: کھانے پینے‘ پہننے‘ تعلیم‘ نکاح وغیرہ کے اخراجات سب کے برابر نہیں ہوسکتے۔ یہ ضرورت کے مطابق ہوں گے۔
حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے منقول ہے کہ میرے والد نے مجھے ایک غلام بطور عطیہ دیا‘ پھر وہ نبی اکرم ﷺ کو گواہ بنانے کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تم نے اپنے تمام بچوں کو عطیہ دیا ہے؟“ انہوں نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر اسے بھی واپس لے لو۔“ یہ سیاق محمد بن منصور کا ہے۔ (قتیبہ بن سعید بالمعنیٰ بیان کرتے ہیں۔)
حدیث حاشیہ:
(1) باپ اور اولاد کا باہمی رشتہ بہت قریبی ہے۔ اس میں ذرہ بھر خرابی بھی بہت سے مفاسد کا موجب ہے‘ لہٰذا شریعت کی طرف سے ہدایت ہے کہ بچوں میں مساوات سے کام لیا جائے تاکہ کسی کو احساس محرومی نہ ہو۔ صرف ایک بیٹے کو عطیہ دینا دوسرے بیٹوں میں اس بھائی اور باپ کے خلاف نفرت پیدا کرسکتا ہے جس کے نتائج خطرناک ہوسکتے ہیں‘ اس لیے اس سے روک دیا گیا ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ عطیہ دینا ہے تو سب کو دیا جائے۔ ایسی صریح روایت کی موجودگی میں احناف کا یہ کہنا تعجب ہے کہ اولاد میں مساوات کی کوئی ضروری نہیں۔“ (2) یہ مساوات صرف تحفہ اور عطیہ میں ہے۔ باقی رہے نفقات تو اس میں حصہ بقدر جبثہ ہوگا‘ مثلاً: کھانے پینے‘ پہننے‘ تعلیم‘ نکاح وغیرہ کے اخراجات سب کے برابر نہیں ہوسکتے۔ یہ ضرورت کے مطابق ہوں گے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
نعمان بن بشیر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہیں ان کے والد نے ایک غلام ہبہ کیا، تو نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے کہ آپ کو اس پر گواہ بنائیں۔ آپ نے پوچھا: ”کیا تم نے اپنے سبھی بیٹوں کو یہ عطیہ دیا ہے؟“ انہوں نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”تو تم اسے واپس لے لو۔“ اس حدیث کے الفاظ محمد (راوی) کے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from An-Nu'man bin Bashir that his father gave him a slave as a present, then he came to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) to ask him to bear witness (to that). He said: "Have you given a present to all of your children?" He said: "No." He said: "Then take it back." This wording is that of (one of the narrators) Muhammad.