باب: عمری كےبارےمیں حضرت جابر كى حديث كے ناقلين كے اختلاف الفاظ كا ذكر
)
Sunan-nasai:
The Book of 'Umra
(Chapter: Mentioning The Different Versions Of The Report Of Jabir Concerning 'Umra)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3730.
حضرت عطاءؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس آدمی کو کوئی چیز زندگی بھر کے لیے دی گئی‘ وہ اسی کی ہے۔ زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی (یعنی اصل شخص کی موت کے بعد اس کے ورثاء کی ہوگی)۔“
تشریح:
الحکم التفصیلی:
قلت : وإسناده صحيح على شرطهما وإبن جريج وإن كان مدلسا فإنما تتقى عنعنته في غير عطاء فقد صح عنه أنه قال : إذا قلت : قال عطاء فأنا سمعته منه وإن لم أقل سمعت . والحديث عزاه السيوطي في الجامع الكبير ( 2 / 340 / 2 ) لمن ذكرنا وزاد فيهم الشافعي وابن حبان وعزاه ابن عبد الهادي ( 2 / 237 ) لأبي داود والنسائي فقط ولم يورده الهيثمي في الموارد وإنما أورده من حديث إبن عباس كما فقط فلا أدري أهو وهم من السيوطي أم تقصير من الهيثمي . ثم إن للحديث طريقا أخرى عن جابر يرويه أبو الزبير عنه مرفوعا بلفظ : العمرى جائزة لمن أعمرها والرقبى جائزة لمن أرقبها . أخرجه أبو داود ( 3558 ) والنسائي ( 2 / 136 ) والترمذي ( 1 / 253 ) وإبن ماجه ( 2383 ) والبيهقي ( 6 / 175 ) وأحمد ( 3 / 303 ) كلهم من طريق داود عن أبي الزبير به . وقال الترمذي : حديث حسن . قلت : وهو على شرط مسلم مع عنعنة أبي الزبير . ولابن جريج فيه إسناد آخر فقال : أني عطاء عن حبيب بن أبي ثابت عن إبن عمر رضي الله عنهما مرفوعا بلفظ : * ( هامش ) * ( 1 ) ولهذا اللفظ شاهد من حديث زيد بن ثابت مرفوعا . اخرجه أحمد ( 5 / 189 ) وأبو داود ( 3559 ) والنسائي ( 2 / 135 ) وابن حبان ( 1149 ) مختصرا وسنده صحيح . ( * )
(6/53)
لا رقبى ولا عمرى فمن أعمر شيئا أو أرقبه فهو له حياته ومماته . قال : والرقبى أن يقول هو للآخر : مني ومنك والعمرى أن يجعل له حياته أن يعمره حياتهما . قال عطاء : فإن أعطاه سنة أو سنتين أو شيئا يسميه فهي منحة يمنحها إياه ليس بعمرى . أخرجه ابن الجارود ( 990 ) . وأخرجه النسائي أيضا ( 2 / 136 ) وابن ماجه ( 2382 ) وأحمد ( 2 / 26 ( 34 ، 73 ) من طرق عن ابن جريج به . قلت : ورجاله ثقات رجال الشيخين لكن حبيبا مدلس وقد عنعنه بل قال النسائي في روايته عن عطاء عنه عن ابن عمر : ولم يسمعه منه . وخالفه يزيد بن أبي زياد بن الجعد فقال : عن حبيب بن أبي ثابت قال : سمعت ابن عمر يقول : فذكره بنحوه . أخرجه النسائي . ولذلك قال الحافظ في الفتح ( 5 / 177 ) بعد أن ذكره باللفظ الأول من طريق النسائي : ورجاله ثقات لكن اختلف في سماع حبيب له من إبن عمر فصرح به النسائي من طريق ونفاه في طريق أخرى . قلت : والمثبت مقدم على النافي لو كان المثبت وهو يزيد بن أبي زياد في منزلة النافي وهو عطاء بن أبي رباح في الحفظ والضبط وليس كذلك فإن يزيد هذا وإن كان ثقة ولكنه لم يعرف بالضبط مثل عطاء ولذلك لا يطمئن القلب للأخذ بزيادته . والله أعلم . وللحديث شاهد من رواية أي الزبير عن طاوس عن إبن عباس عن النبي ( صلى الله عليه وسلم ) قال : لا ترقبوا أموالكم فمن أرقب شيئا فهو للذي أرقبه . والرقبى أن يقول الرجل : هذا لفلان ما عاش فإن مات فلان فهو لفلان . أخرجه ابن حبان ( 1151 ) والضياء في المختارة ( 62 / 281 / 1 ) بتمامه
(6/54)
وأحمد ( 1 / 250 ) مختصرا . قلت : ورجاله ثقات إلا أن فيه عنعنة أبي الزبير
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3735
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3733
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3761
تمہید کتاب
عمریٰ بھی ہبہ کی ایک صورت ہے جس میں عمر کی قید لگائی جاتی ہے۔ عطیہ دینے والا کہتا ہے: میں نے یہ چیز بھی عمر بھر کے لیے دی۔ کبھی کبھار یہ بھی کہاجاتا ہے کہ جب تو مرجائے گا تو واپس مجھے مل جائے گی۔ لیکن چونکہ یہ شرط شریعت کے خلاف ہے‘ لہٰذا غِیر معتبر ہے کیونکہ جو چیز کسی شخص کے پاس زندگی بھر آخری سانس تک رہی‘ وہ اس کا ترکہ شمار ہوگی اور اس کے ورثاء کو ملے گی۔ اس کی واپسی کی شرط غلط ہے اور غلط شرط فاسد ہوتی ہے‘ نیز یہ ہبہ ہے اور ہبہ میں رجوع کرنا شرعاًحرمام ہے۔ اس لحاظ سے بھی یہ شرط ناجائز ہے۔ یہ جمہور اہل علم کا مسلک ہے۔
تمہید باب
یہ اختلاف سند اور متن دونوں میں ہے۔ سند میں اختلاف یہ ہے کہ بعض نے اسے متصل بیان کیا ہے اور بعض نے مرسل‘ نیز بعض نے اسے ابن عباس کی مسند بنایا ہے اور بعض نے ابن عمر رضی اللہ عنہکی۔ لیکن ابن عمر کی مسند بنانا درست نہیں۔ متن میں اختلاف واضح ہے کہ مختلف راویوں نے مختلف الفاظ بیان کیے ہیں۔ لیکن یہ اختلاف نقصان دہ نہیں کیونکہ مفہوم سب روایات کا ایک ہی ہے۔ وہ یہ کہ عمریٰ اور رقبیٰ نہیں دینا چاہیے ‘لیکن اگر دے دیا گیا تو واپس نہیں ہوگا بلکہ دینے والے کا ہی ہو جائے گااور اس کے مرنے کے بعد اس کے ورثاء کو ملے گا۔
حضرت عطاءؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس آدمی کو کوئی چیز زندگی بھر کے لیے دی گئی‘ وہ اسی کی ہے۔ زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی (یعنی اصل شخص کی موت کے بعد اس کے ورثاء کی ہوگی)۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عطاء کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص کو کوئی چیز صرف زندگی بھر برتنے کے لیے دی گئی تو وہ چیز اس کی ہو جائے گی اس کی زندگی میں اور اس کے مرنے کے بعد بھی۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Abdul-Malik bin Abi Sulaiman narrated from 'Ata' who said: "The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) said: 'Whoever is given something for the rest of his life, it belongs to him for as long as he lives and after he dies.