Sunan-nasai:
The Book of 'Umra
(Chapter: Mentioning The Different Reports From Az-Zuhri About It)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3749.
حضرت جابر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عمریٰ کے بارے میں فیصلہ فرمایا کہ جب کوئی شخص دوسرے کو اس کی اولاد تک کے لیے کوئی ہبہ کردے اور پھر یہ استثنا کرے کہ اگر تجھے اور تیری اولاد کو کوئی حادثہ پیش آگیا تو یہ ہبہ مجھے اور میری اولاد کو مل جائے گا۔ (آپ نے فیصلہ فرمایا:) ”وہ ہبہ اسی کا ہے جسے دیا گیا اور اس کی اولاد کا ہے۔“
تشریح:
حدیث: ۳۷۷۴ سے اس حدیث تک عمریٰ کی یہ صورت بیان کی گئی ہے کہ یہ چیز تیرے اور تیری اولاد کے لیے ہے۔ ظاہر ہے یہ چیز تو واپس آنے سے رہی کیونکہ دینے والا خود ”اولاد“ کی صراحت کرچکا ہے۔ اس قسم کی احادیث سے امام مالک رحمہ اللہ نے استدلال فرمایا ہے کہ اگر عمریٰ دینے والا ”اولاد“ کی صراحت نہ کرے تو وہ چیز معمرلہ کی وفات کے بعد دینے والے کو واپس مل جائے گی۔ مگر استدلال کمزور ہے کیونکہ اس کی صراحت نہیں کی گئی۔ صرف ان احادیث سے ایسے مفہوماً سمجھ میں آتا ہے جبکہ دیگر احادیث میں صراحتاً صرف عمریٰ کا لفظ کہنے پر بھی واپسی کی نفی کی گئی ہے۔ چاہے اس نے اولاد کا ذکر نہ بھی کیا ہو۔ جب منطوق (صراحت) اور مفہوم میں مقابلہ ہو تو منطوق (صراحت) ہی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ تفصیل پیچھے بیان ہوچکی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3754
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3752
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3780
تمہید کتاب
عمریٰ بھی ہبہ کی ایک صورت ہے جس میں عمر کی قید لگائی جاتی ہے۔ عطیہ دینے والا کہتا ہے: میں نے یہ چیز بھی عمر بھر کے لیے دی۔ کبھی کبھار یہ بھی کہاجاتا ہے کہ جب تو مرجائے گا تو واپس مجھے مل جائے گی۔ لیکن چونکہ یہ شرط شریعت کے خلاف ہے‘ لہٰذا غِیر معتبر ہے کیونکہ جو چیز کسی شخص کے پاس زندگی بھر آخری سانس تک رہی‘ وہ اس کا ترکہ شمار ہوگی اور اس کے ورثاء کو ملے گی۔ اس کی واپسی کی شرط غلط ہے اور غلط شرط فاسد ہوتی ہے‘ نیز یہ ہبہ ہے اور ہبہ میں رجوع کرنا شرعاًحرمام ہے۔ اس لحاظ سے بھی یہ شرط ناجائز ہے۔ یہ جمہور اہل علم کا مسلک ہے۔
تمہید باب
یہ اختلاف الفاظ کا ہے۔ امام زہری کے شاگرد ان سے مختلف الفاظ بیان کرتے ہیں۔ کوئی عمریٰ کی ممانعت کی علت کے بغیر مطلق الفاظ بیان کرتا ہے‘ کوئی علت کا تذکرہ کرتا ہے‘ پھر کوئی علت مرفوعاً بیان کرتا ہے‘ کوئی مدارج اور کوئی ابوسلمہ کا قول۔ لیکن یہ اختلاف مضر نہیں۔ مفہوم سب کا ایک ہی ہے۔ اسی لیے امام مسلم نے اپنی صحیح میں یہ تمام الفاظ بیان کیے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ممانعت کی علت‘ حدیث میں مدرج ہے اور ابوسلمہ کا قول ہے۔ واللہ اعلم۔
حضرت جابر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عمریٰ کے بارے میں فیصلہ فرمایا کہ جب کوئی شخص دوسرے کو اس کی اولاد تک کے لیے کوئی ہبہ کردے اور پھر یہ استثنا کرے کہ اگر تجھے اور تیری اولاد کو کوئی حادثہ پیش آگیا تو یہ ہبہ مجھے اور میری اولاد کو مل جائے گا۔ (آپ نے فیصلہ فرمایا:) ”وہ ہبہ اسی کا ہے جسے دیا گیا اور اس کی اولاد کا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
حدیث: ۳۷۷۴ سے اس حدیث تک عمریٰ کی یہ صورت بیان کی گئی ہے کہ یہ چیز تیرے اور تیری اولاد کے لیے ہے۔ ظاہر ہے یہ چیز تو واپس آنے سے رہی کیونکہ دینے والا خود ”اولاد“ کی صراحت کرچکا ہے۔ اس قسم کی احادیث سے امام مالک رحمہ اللہ نے استدلال فرمایا ہے کہ اگر عمریٰ دینے والا ”اولاد“ کی صراحت نہ کرے تو وہ چیز معمرلہ کی وفات کے بعد دینے والے کو واپس مل جائے گی۔ مگر استدلال کمزور ہے کیونکہ اس کی صراحت نہیں کی گئی۔ صرف ان احادیث سے ایسے مفہوماً سمجھ میں آتا ہے جبکہ دیگر احادیث میں صراحتاً صرف عمریٰ کا لفظ کہنے پر بھی واپسی کی نفی کی گئی ہے۔ چاہے اس نے اولاد کا ذکر نہ بھی کیا ہو۔ جب منطوق (صراحت) اور مفہوم میں مقابلہ ہو تو منطوق (صراحت) ہی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ تفصیل پیچھے بیان ہوچکی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ عمریٰ کے سلسلہ میں ایک شخص نے ایک شخص کو اور اس کی اولاد کو کوئی چیز ہبہ کی اور اس بات کا استثناء کیا کہ اگر تمہارے ساتھ اور تمہاری اولاد کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آ گیا یا تو یہ چیز میری اور میری اولاد کی ہو جائے گی رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ دیا کہ وہ چیز اس کی ہو گی جس کو دے دی گئی ہے اور اس کے اولاد کی ہو گی (استثناء کا کوئی حاصل نہ ہو گا)۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Yazid bin Abi Habib narrated from Ibn Shihab, from Abu Salamah, from Jabir, that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) ruled concerning 'Umra -when a man gives a gift to another man, and his descendants, but stipulates that if something happens to you and your descendants, then it will belong to me and my descendants- "It belongs to the one to whom it was given, and to his descendants.