باب: کیا عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر عطیہ دے سکتی ہے
)
Sunan-nasai:
The Book of 'Umra
(Chapter: A Woman Giving A Gift Without Her Husband's Permission)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3758.
حضرت عبدالرحمن بن علقمہ ثقفی سے منقول ہے کہ بنوثقیب کا وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان کے ساتھ تحفے تحائف بھی تھے۔ آپ نے فرمایا: ”یہ تحفہ ہیں یا صدقہ؟ اگر تحفے ہیں تو ان سے رسول اللہ ﷺ کی رضا مندی مقصود ہوگی اور اپنا کوئی مقصد پورا کرنا مطلوب ہوگا اور اگر صدقہ ہیں تو اس سے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی مقصود ہوگی۔“ انہوں نے کہا: یہ تحفے ہیں۔ آپ نے ان سے تحائف قبول فرمائے اور ان کے ساتھ تشریف فرما ہوگئے۔ آپ ان سے حال احوال پوچھتے تھے‘ وہ آپ سے پوچھتے رہے‘ حتیٰ کہ آپ نے ظہر کی نماز عصر کے ساتھ پڑھی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3767
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3767
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3789
تمہید کتاب
عمریٰ بھی ہبہ کی ایک صورت ہے جس میں عمر کی قید لگائی جاتی ہے۔ عطیہ دینے والا کہتا ہے: میں نے یہ چیز بھی عمر بھر کے لیے دی۔ کبھی کبھار یہ بھی کہاجاتا ہے کہ جب تو مرجائے گا تو واپس مجھے مل جائے گی۔ لیکن چونکہ یہ شرط شریعت کے خلاف ہے‘ لہٰذا غِیر معتبر ہے کیونکہ جو چیز کسی شخص کے پاس زندگی بھر آخری سانس تک رہی‘ وہ اس کا ترکہ شمار ہوگی اور اس کے ورثاء کو ملے گی۔ اس کی واپسی کی شرط غلط ہے اور غلط شرط فاسد ہوتی ہے‘ نیز یہ ہبہ ہے اور ہبہ میں رجوع کرنا شرعاًحرمام ہے۔ اس لحاظ سے بھی یہ شرط ناجائز ہے۔ یہ جمہور اہل علم کا مسلک ہے۔
حضرت عبدالرحمن بن علقمہ ثقفی سے منقول ہے کہ بنوثقیب کا وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان کے ساتھ تحفے تحائف بھی تھے۔ آپ نے فرمایا: ”یہ تحفہ ہیں یا صدقہ؟ اگر تحفے ہیں تو ان سے رسول اللہ ﷺ کی رضا مندی مقصود ہوگی اور اپنا کوئی مقصد پورا کرنا مطلوب ہوگا اور اگر صدقہ ہیں تو اس سے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی مقصود ہوگی۔“ انہوں نے کہا: یہ تحفے ہیں۔ آپ نے ان سے تحائف قبول فرمائے اور ان کے ساتھ تشریف فرما ہوگئے۔ آپ ان سے حال احوال پوچھتے تھے‘ وہ آپ سے پوچھتے رہے‘ حتیٰ کہ آپ نے ظہر کی نماز عصر کے ساتھ پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبدالرحمٰن بن علقمہ ثقفی کہتے ہیں کہ قبیلہ ثقیف کا ایک وفد رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، ان کے ساتھ کچھ ہدیہ بھی تھا۔ آپ نے ان سے پوچھا: یہ ہدیہ ہے یا صدقہ؟ اگر یہ ہدیہ ہے تو اس سے رسول اللہ ﷺ کی خوشنودی اور ضروریات کی تکمیل مطلوب اور پیش نظر ہے، اور اگر صدقہ ہے تو اس سے اللہ عزوجل کی خوشنودی مطلوب و مقصود ہے۔ ان لوگوں نے کہا: یہ ہدیہ ہے، تو آپ نے اسے ان سے قبول فرما لیا اور ان کے ساتھ بیٹھے باتیں کرتے رہے اور وہ لوگ آپ سے مسئلہ مسائل پوچھتے رہے یہاں تک کہ آپ نے ظہر عصر کے ساتھ ملا کر پڑھی.
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یہ اور اس کے بعد کی تینوں حدیثیں متفرق ابواب کی ہیں، ان کا اس باب سے کوئی تعلق نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Abdur-Rahman bin 'Alqamah Ath-Thaqafi said: "The delegation of Thaqif came to the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم), bringing a gift with them. He said: 'Is it a gift or charity?' If it was a gift it would be for the sake of the Messenger of Allah and to have their needs met, and if it was charity then it would be in the cause of Allah. They said: 'It is a gift.' So he accepted it from them, and sat with them, and they asked questions, until he prayed Zuhr with 'Asr.