باب: کیا عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر عطیہ دے سکتی ہے
)
Sunan-nasai:
The Book of 'Umra
(Chapter: A Woman Giving A Gift Without Her Husband's Permission)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3759.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں کسی قریشی‘ انصاری‘ ثقفی یا دوسی شخص کے علاوہ سے تحفہ قبول نہیں کروں گا۔“
تشریح:
(1) اس فرمان کا سبب یہ ہوا کہ ایک اعرابی نے آپ کو ایک اونٹ تحفے میں دیا۔ اس کا مقصد معاوضـہ لینا تھا۔ آپ نے اسے چھ اونٹ دے دیے‘ پھر بھی وہ راضی نہ ہوا‘ اس لیے آپ نے یہ ارشاد فرمایا کیونکہ لوگوں نے آپ کو عام بادشاہوں کی طرح سمجھ رکھا تھا کہ جن سے حیلے بہانوں سے پیسے بٹورے جاتے ہیں۔ (2) قریشی‘ انصاری‘ ثقفی‘ دوسی چونکہ آپ کے تربیت یافتہ اور آپ کی حیثیت سے واقف تھے‘ وہ آپ کو تحفہ تبرک کی غرض سے دیتے تھے‘ اس لیے آپ نے ان قبیلوں کو مستثنیٰ قراردیا ہے۔ (3) اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ اگر تحفہ دینے والہ لالچی شخص ہو اور جو عوض دیا جائے اس پر راضی نہ ہوتا ہو تو تحفہ قبول کرنے سے انکار بھی کیا جاسکتا ہے۔ (4) تحفہ دینے والے کو اس کے تحفے کے مقابل عوض دینا جائز ہے۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في السلسلة الصحيحة 4 / 253 :
أخرجه البخاري في الأدب المفرد ( 596 ) و عنه الترمذي ( 2 / 330 ) و السياق
له - و هو أتم - عن محمد بن إسحاق عن سعيد بن أبي سعيد المقبري عن أبيه عن
أبي هريرة قال : أهدى رجل من بني فزارة إلى النبي صلى الله عليه وسلم
ناقة من إبله التي كانوا أصابوا بـ ( الغابة ) ، فعوضه منها بعض العوض ، فتسخطه
، فسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم على هذا المنبر يقول .... فذكره .
و قال : هذا حديث حسن ، و هو أصح من حديث يزيد بن هارون عن أيوب .
قلت : يشير إلى ما أخرجه قبله قال : حدثنا أحمد بن منيع : حدثنا يزيد بن هارون
: أخبرني أيوب عن سعيد المقبري به بشيء من الاختصار و قال : قد روي من غير
وجه عن أبي هريرة . و يزيد بن هارون يروي عن أيوب أبي العلاء و هو أيوب بن
مسكين ، و يقال ابن أبي مسكين . و لعل هذا الحديث الذي رواه عن أيوب عن سعيد
المقبري . و هو أيوب أبو العلاء .
قلت : كذا في الأصل طبعة بولاق ، و في العبارة شيء . ثم رجعت إلى نسخة الأحوذي
فإذا العبارة فيه هكذا : و لعل هذا الحديث الذي روي عن أيوب عن سعيد المقبري هو
أيوب أبو العلاء و هو أيوب بن مسكين . و لعل هذا هو الصواب . و الله أعلم .
و أيوب هذا صدوق له أوهام كما في التقريب . و ابن إسحاق مدلس ، و من طريقه
أخرجه أبو داود ( 3537 ) مختصرا . و قد توبع ، فقال أحمد ( 2 / 292 ) : حدثنا
يزيد : أنبأنا أبو معشر عن سعيد بن أبي سعيد المقبري به . و أبو معشر هذا اسمه
نجيح بن عبد الرحمن السندي المدني و فيه ضعف . و يزيد هو ابن هارون ، فالظاهر
أن له فيه شيخين أيوب بن أبي مسكين و أبو معشر . و تابعه ابن عجلان عن المقبري
به . أخرجه البيهقي ( 6 / 180 ) ، فالحديث بمجموع هذه المتابعات صحيح . و له
طريق أخرى عن أبي هريرة مرفوعا مختصرا . أخرجه ابن حبان ( 1145 ) . و له عنده
و عند الضياء ( 62 / 281 / 2 ) شاهد من حديث ابن عباس . و سنده صحيح .
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3768
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3768
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3790
تمہید کتاب
عمریٰ بھی ہبہ کی ایک صورت ہے جس میں عمر کی قید لگائی جاتی ہے۔ عطیہ دینے والا کہتا ہے: میں نے یہ چیز بھی عمر بھر کے لیے دی۔ کبھی کبھار یہ بھی کہاجاتا ہے کہ جب تو مرجائے گا تو واپس مجھے مل جائے گی۔ لیکن چونکہ یہ شرط شریعت کے خلاف ہے‘ لہٰذا غِیر معتبر ہے کیونکہ جو چیز کسی شخص کے پاس زندگی بھر آخری سانس تک رہی‘ وہ اس کا ترکہ شمار ہوگی اور اس کے ورثاء کو ملے گی۔ اس کی واپسی کی شرط غلط ہے اور غلط شرط فاسد ہوتی ہے‘ نیز یہ ہبہ ہے اور ہبہ میں رجوع کرنا شرعاًحرمام ہے۔ اس لحاظ سے بھی یہ شرط ناجائز ہے۔ یہ جمہور اہل علم کا مسلک ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں کسی قریشی‘ انصاری‘ ثقفی یا دوسی شخص کے علاوہ سے تحفہ قبول نہیں کروں گا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس فرمان کا سبب یہ ہوا کہ ایک اعرابی نے آپ کو ایک اونٹ تحفے میں دیا۔ اس کا مقصد معاوضـہ لینا تھا۔ آپ نے اسے چھ اونٹ دے دیے‘ پھر بھی وہ راضی نہ ہوا‘ اس لیے آپ نے یہ ارشاد فرمایا کیونکہ لوگوں نے آپ کو عام بادشاہوں کی طرح سمجھ رکھا تھا کہ جن سے حیلے بہانوں سے پیسے بٹورے جاتے ہیں۔ (2) قریشی‘ انصاری‘ ثقفی‘ دوسی چونکہ آپ کے تربیت یافتہ اور آپ کی حیثیت سے واقف تھے‘ وہ آپ کو تحفہ تبرک کی غرض سے دیتے تھے‘ اس لیے آپ نے ان قبیلوں کو مستثنیٰ قراردیا ہے۔ (3) اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ اگر تحفہ دینے والہ لالچی شخص ہو اور جو عوض دیا جائے اس پر راضی نہ ہوتا ہو تو تحفہ قبول کرنے سے انکار بھی کیا جاسکتا ہے۔ (4) تحفہ دینے والے کو اس کے تحفے کے مقابل عوض دینا جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے ارادہ کر لیا ہے تھا کہ قریشی، انصاری، ثقفی، دوسی کو چھوڑ کر کسی اور کا ہدیہ قبول نہ کروں.“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کہا تھا جب ایک اعرابی نے آپ کی خدمت میں ہدیہ پیش کیا اور آپ نے اسے اس کے اس ہدیہ کے بالمقابل بہت کچھ نوازا مگر اس اعرابی نے اسے بہت کم سمجھا اور اس سے زیادہ کا حریص ہوا اسی موقع پر آپ نے یہ بات کہی تھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Hurairah (RA) that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) said: "I was thinking of not accepting gifts except from a Quraishi, an Ansari, a Thaqafi or a Dawsi.