Sunan-nasai:
The Book of Oaths and Vows
(Chapter: Swearing By The Controller Of The Hearts)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3762.
حضرت سالم کے والد محترم (حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ) نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کی قسم، جو آپ عموماً اٹھایا کرتے تھے‘ یہ تھی: ”مجھے قسم ہے اس ذات کی جو دلوں کو پھیرنے والی ہے! معاملہ ایسے نہیں۔“
تشریح:
(1) ”لا“ یہ گزشتہ کلام کا نفی ہے۔ گویا یہ قسم کسی کلام کی نفی کے لیے کھائی گئی ہے۔ ممکن ہے یہ صرف تاکید کے لیے آیا ہو‘ جیسے: ﴿لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ﴾(القیٰمة: ۷۵:۱) میں ہے۔ اس صورت میں یہ زائد ہوگا‘ یعنی اس کا ترجمہ نہیں کیا جائے گا۔ البتہ تاکید حاصل ہوگی۔ (2) ان الفاظ کے ساتھ قسم کھانا مستحب ہے۔ (3) اللہ تعالیٰ کے افعال کے ساتھ قسم کھنا جائز ہے۔ (4) راجح قول کے مطابق یہ روایت شواہد کی بنا پر صحیح ہے جیسا کہ محقق کتاب نے بھی کہا ہے کہ سابقہ حدیث اس سے کفایت کرتی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3771
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3771
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3793
تمہید کتاب
عربی میں قسم کو یمین کہا جاتا ہے۔ یمین کے لغوی معنی دایاں ہاتھ ہیں۔ عرب لوگ بات کو اور سودے یا عہد کو پکا کرنے کے لیے اپنا دایاں ہاتھ فریق ثانی کے ہاتھ پر رکھتے تھے۔ قسم بھی
بات کو پختہ کرنے کے لیے ہوتی ہے‘ اس لیے کبھی قسم کے موقع پر بھی اپنا دوسرے کے ہاتھ پر رکھتے تھے۔ اس مناسبت سے قسم کو یمین کہا جاتا ہے۔
نذر سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص کسی ایسے فعل کو اپنے لیے واجب قراردے لے جو جائز ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ضروری قرار نہیں دیا‘ وہ بدنی کام ہو یا مالی۔ دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے‘ یعنی قسم کے ساتھ بھی فعل مؤکدہ ہوجاتا ہے اور نذر کے ساتھ بھی‘ لہٰذا انہیں اکٹھا ذکر کیا‘ نیز شریعت نے قسم اور نذر کا کفارہ ایک ہی رکھا ہے۔ قسم اور نذر دونوں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہی کے لیے ہوسکتی ہیں ورنہ شرک کا خطرہ ہے۔
حضرت سالم کے والد محترم (حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ) نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کی قسم، جو آپ عموماً اٹھایا کرتے تھے‘ یہ تھی: ”مجھے قسم ہے اس ذات کی جو دلوں کو پھیرنے والی ہے! معاملہ ایسے نہیں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”لا“ یہ گزشتہ کلام کا نفی ہے۔ گویا یہ قسم کسی کلام کی نفی کے لیے کھائی گئی ہے۔ ممکن ہے یہ صرف تاکید کے لیے آیا ہو‘ جیسے: ﴿لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ﴾(القیٰمة: ۷۵:۱) میں ہے۔ اس صورت میں یہ زائد ہوگا‘ یعنی اس کا ترجمہ نہیں کیا جائے گا۔ البتہ تاکید حاصل ہوگی۔ (2) ان الفاظ کے ساتھ قسم کھانا مستحب ہے۔ (3) اللہ تعالیٰ کے افعال کے ساتھ قسم کھنا جائز ہے۔ (4) راجح قول کے مطابق یہ روایت شواہد کی بنا پر صحیح ہے جیسا کہ محقق کتاب نے بھی کہا ہے کہ سابقہ حدیث اس سے کفایت کرتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جو قسم کھاتے تھے وہ یہ تھی «لَا وَمُصَرِّفِ الْقُلُوبِ»”نہیں، اس کی قسم جو دلوں کو پھیرنے والا ہے.
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Salim that his father said: "The oath by which the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) used to swear was: 'No, by the Controller of the hearts.