Sunan-nasai:
The Book of Oaths and Vows
(Chapter: A Vow Does Not Bring Anything Forward Nor Put It Back)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3804.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”(اللہ تعالیٰ نے فرمایا:) نذر انسان کے لیے کوئی ایسی چیز نہیں لاتی جو میں نے اس کے لیے مقدر نہ کی ہو‘ البتہ اس کے ذریعے سے بخیل شخص سے کچھ مال نکالا جاتا ہے۔“
تشریح:
(1) عام لوگوں کا ذہن یہ ہے کہ نذر ماننے سے شاید تقدیر یا مصیبت ٹل جاتی ہے‘ حالانکہ نذر سے کچھ بھی نہیں ہوتا‘ نہ یہ شرعاً مستسحن ہے۔ اس کی بجائے صدقہ مصیبت کو رد کرتا ہے اور دعا بھی تقدیر کو ٹال سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ دعا کی برکت سے اپنا کوئی فیصلہ بدل سکتے ہیں۔ اسے کوئی روک سکتا ہے‘ نہ مجبور کرسکتا ہے اور نہ کوئی اس سے پوچھ ہی سکتا ہے۔ {لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَ ہُمْ یُسْئَلُوْنَ} (الانبیاء:۲۱:۲۳) وہ سب کچھ کرنے پر قادر ہے۔ لہٰذا ندر کی بجائے‘ صدقے‘ نیکی اور دعا کی طرف رغبت کرنی چاہیے۔ (2) یہ حدیث‘ احادیث قدسیہ میں شمار کی گئی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3813
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3813
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3835
تمہید کتاب
عربی میں قسم کو یمین کہا جاتا ہے۔ یمین کے لغوی معنی دایاں ہاتھ ہیں۔ عرب لوگ بات کو اور سودے یا عہد کو پکا کرنے کے لیے اپنا دایاں ہاتھ فریق ثانی کے ہاتھ پر رکھتے تھے۔ قسم بھی
بات کو پختہ کرنے کے لیے ہوتی ہے‘ اس لیے کبھی قسم کے موقع پر بھی اپنا دوسرے کے ہاتھ پر رکھتے تھے۔ اس مناسبت سے قسم کو یمین کہا جاتا ہے۔
نذر سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص کسی ایسے فعل کو اپنے لیے واجب قراردے لے جو جائز ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ضروری قرار نہیں دیا‘ وہ بدنی کام ہو یا مالی۔ دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے‘ یعنی قسم کے ساتھ بھی فعل مؤکدہ ہوجاتا ہے اور نذر کے ساتھ بھی‘ لہٰذا انہیں اکٹھا ذکر کیا‘ نیز شریعت نے قسم اور نذر کا کفارہ ایک ہی رکھا ہے۔ قسم اور نذر دونوں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہی کے لیے ہوسکتی ہیں ورنہ شرک کا خطرہ ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”(اللہ تعالیٰ نے فرمایا:) نذر انسان کے لیے کوئی ایسی چیز نہیں لاتی جو میں نے اس کے لیے مقدر نہ کی ہو‘ البتہ اس کے ذریعے سے بخیل شخص سے کچھ مال نکالا جاتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) عام لوگوں کا ذہن یہ ہے کہ نذر ماننے سے شاید تقدیر یا مصیبت ٹل جاتی ہے‘ حالانکہ نذر سے کچھ بھی نہیں ہوتا‘ نہ یہ شرعاً مستسحن ہے۔ اس کی بجائے صدقہ مصیبت کو رد کرتا ہے اور دعا بھی تقدیر کو ٹال سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ دعا کی برکت سے اپنا کوئی فیصلہ بدل سکتے ہیں۔ اسے کوئی روک سکتا ہے‘ نہ مجبور کرسکتا ہے اور نہ کوئی اس سے پوچھ ہی سکتا ہے۔ {لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَ ہُمْ یُسْئَلُوْنَ} (الانبیاء:۲۱:۲۳) وہ سب کچھ کرنے پر قادر ہے۔ لہٰذا ندر کی بجائے‘ صدقے‘ نیکی اور دعا کی طرف رغبت کرنی چاہیے۔ (2) یہ حدیث‘ احادیث قدسیہ میں شمار کی گئی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”(اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) نذر ابن آدم کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں لا سکتی جسے میں نے اس کے لیے مقدر نہ کیا ہو، البتہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس سے بخیل سے (کچھ مال) نکال لیا جاتا ہے.“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یہ حدیث قدسی ہے اگرچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحۃً اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کیا ہے، لیکن سیاق سے بالکل واضح ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Hurairah (RA) that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) said: "A vow does not bring anything to the son of Adam that has not been decreed for him. It is just a means of taking wealth from the miserly.