باب: جو شخص فوت ہوجائے اور اس کے ذمے نذر باقی ہو تو؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Oaths and Vows
(Chapter: If A Person Dies With A Vow Unfulfilled)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3817.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ ؓ نے سول اللہ ﷺ نے سے ایک نذر کے بارے میں پوچھا جو ان کی والدہ کے ذمے تھی لیکن وہ اس کی ادائیگی سے پہلے فوت ہوگئی تھی۔ آپ نے فرمایا: ”تم اس کی طرف سے ادا کردو۔“
تشریح:
کسی راویت میں صراحت نہیں کہ وہ نذر کیا تھی؟ بعض حضرات نے ایک روایت سے استنباط کیا ہے کہ وہ نذر غلام آزاد کرنے کی تھی مگر اس روایت میں بھی صراحت نہیں کہ نذر آزاد کرنے کی تھی۔ اس میں صرف غلام آزاد کرنے کا ذکر ہے۔ ممکن ہے وہ غلام نذر کے کفارے میں آزاد کیا گیا ہو‘ نہ کہ بطور نذر۔ بعض نے روزے کہا ہے۔ واللہ أعلم۔ بہر صورت اگر میت نذر پوری کرنے کی وصیت کرجائے تو نذر پوری کرنا ورثاء پر فرض ہوگا ورنہ مستحب۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3826
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3826
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3848
تمہید کتاب
عربی میں قسم کو یمین کہا جاتا ہے۔ یمین کے لغوی معنی دایاں ہاتھ ہیں۔ عرب لوگ بات کو اور سودے یا عہد کو پکا کرنے کے لیے اپنا دایاں ہاتھ فریق ثانی کے ہاتھ پر رکھتے تھے۔ قسم بھی
بات کو پختہ کرنے کے لیے ہوتی ہے‘ اس لیے کبھی قسم کے موقع پر بھی اپنا دوسرے کے ہاتھ پر رکھتے تھے۔ اس مناسبت سے قسم کو یمین کہا جاتا ہے۔
نذر سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص کسی ایسے فعل کو اپنے لیے واجب قراردے لے جو جائز ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ضروری قرار نہیں دیا‘ وہ بدنی کام ہو یا مالی۔ دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے‘ یعنی قسم کے ساتھ بھی فعل مؤکدہ ہوجاتا ہے اور نذر کے ساتھ بھی‘ لہٰذا انہیں اکٹھا ذکر کیا‘ نیز شریعت نے قسم اور نذر کا کفارہ ایک ہی رکھا ہے۔ قسم اور نذر دونوں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہی کے لیے ہوسکتی ہیں ورنہ شرک کا خطرہ ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ ؓ نے سول اللہ ﷺ نے سے ایک نذر کے بارے میں پوچھا جو ان کی والدہ کے ذمے تھی لیکن وہ اس کی ادائیگی سے پہلے فوت ہوگئی تھی۔ آپ نے فرمایا: ”تم اس کی طرف سے ادا کردو۔“
حدیث حاشیہ:
کسی راویت میں صراحت نہیں کہ وہ نذر کیا تھی؟ بعض حضرات نے ایک روایت سے استنباط کیا ہے کہ وہ نذر غلام آزاد کرنے کی تھی مگر اس روایت میں بھی صراحت نہیں کہ نذر آزاد کرنے کی تھی۔ اس میں صرف غلام آزاد کرنے کا ذکر ہے۔ ممکن ہے وہ غلام نذر کے کفارے میں آزاد کیا گیا ہو‘ نہ کہ بطور نذر۔ بعض نے روزے کہا ہے۔ واللہ أعلم۔ بہر صورت اگر میت نذر پوری کرنے کی وصیت کرجائے تو نذر پوری کرنا ورثاء پر فرض ہوگا ورنہ مستحب۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اس نذر کے متعلق مسئلہ پوچھا جو ان کی ماں کے ذمہ تھی اور اسے پوری کرنے سے پہلے ہی ان کا انتقال ہو چکا تھا تو آپ نے فرمایا: ”ان کی طرف سے تم اسے پوری کرو.“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn 'Abbas that Sa'd bin 'Ubadah asked the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) about a vow which his mother had sworn, but she died before she could fulfill it. He said: "Fulfill it on her behalf.