باب: جب کوئی شخص اپنا مال بطور نذر صدقے کے لیے پیش کرے تو؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Oaths and Vows
(Chapter: Giving Away One's Wealth Because Of A Vow)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3825.
حضرت عبداللہ بن کعب بن مالک سے راویت ہے‘ انہوں نے فرمایا: میں نے (اپنے والد محترم) حضرت کعب بن مالک ؓ کو اپنا واقعہ بیان فرماتے ہوئے سنا‘ جب وہ غزوۂ تبوک میں رسول اللہ ﷺ سے پیچھے رہ گئے تھے۔ انہوں نے فرمایا: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میری توبہ میں سے یہ بھی ہے کہ میں اپنا مال اللہ اور اس کے رسول کے لیے صدقہ کرتے ہوئے اس سے لا تعلق ہوجاؤں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اپنا کچھ مال رکھ لے۔“ یہ تیرے لیے بہتر ہوگا۔“ میں نے کہا: میں اپنا خیبر والا حصہ رکھ لیتا ہوں۔
تشریح:
(1) ”اللہ اور اس کے رسول کے لیے“ کیونکہ اس موقع پر اللہ اور اس کا رسول دونوں ناراض ہوگئے تھے‘ لہٰذا دونوں کو راضی کرنا مقصود تھا۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کو راضی کرنا منع نہیں‘ مثلاً: والدین کی رضا مندی کا حصول۔ ویسے بھی اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی رضا مندی اور ناراضی اکٹھی ہی ہوتی ہے۔ اللہ راضی تو رسول بھی راضی۔ اللہ ناراض تو رسول بھی ناراض‘ البتہ کسی عبادت‘ مثلاً: نماز‘ روزہ وغیرہ میں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا وثواب ہی مقصود ہونا چاہیے۔ (2) ﴿قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ﴾ صدقہ وصول کرنے والے کو صدقہ دینے والے کی طاقت بھی مدنظر رکھنی چاہیے‘ اس پر اتنا بوجھ ڈالا جائے جتنا وہ اٹھا سکے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3834
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3834
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3856
تمہید کتاب
عربی میں قسم کو یمین کہا جاتا ہے۔ یمین کے لغوی معنی دایاں ہاتھ ہیں۔ عرب لوگ بات کو اور سودے یا عہد کو پکا کرنے کے لیے اپنا دایاں ہاتھ فریق ثانی کے ہاتھ پر رکھتے تھے۔ قسم بھی
بات کو پختہ کرنے کے لیے ہوتی ہے‘ اس لیے کبھی قسم کے موقع پر بھی اپنا دوسرے کے ہاتھ پر رکھتے تھے۔ اس مناسبت سے قسم کو یمین کہا جاتا ہے۔
نذر سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص کسی ایسے فعل کو اپنے لیے واجب قراردے لے جو جائز ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ضروری قرار نہیں دیا‘ وہ بدنی کام ہو یا مالی۔ دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے‘ یعنی قسم کے ساتھ بھی فعل مؤکدہ ہوجاتا ہے اور نذر کے ساتھ بھی‘ لہٰذا انہیں اکٹھا ذکر کیا‘ نیز شریعت نے قسم اور نذر کا کفارہ ایک ہی رکھا ہے۔ قسم اور نذر دونوں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہی کے لیے ہوسکتی ہیں ورنہ شرک کا خطرہ ہے۔
حضرت عبداللہ بن کعب بن مالک سے راویت ہے‘ انہوں نے فرمایا: میں نے (اپنے والد محترم) حضرت کعب بن مالک ؓ کو اپنا واقعہ بیان فرماتے ہوئے سنا‘ جب وہ غزوۂ تبوک میں رسول اللہ ﷺ سے پیچھے رہ گئے تھے۔ انہوں نے فرمایا: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میری توبہ میں سے یہ بھی ہے کہ میں اپنا مال اللہ اور اس کے رسول کے لیے صدقہ کرتے ہوئے اس سے لا تعلق ہوجاؤں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اپنا کچھ مال رکھ لے۔“ یہ تیرے لیے بہتر ہوگا۔“ میں نے کہا: میں اپنا خیبر والا حصہ رکھ لیتا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
(1) ”اللہ اور اس کے رسول کے لیے“ کیونکہ اس موقع پر اللہ اور اس کا رسول دونوں ناراض ہوگئے تھے‘ لہٰذا دونوں کو راضی کرنا مقصود تھا۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کو راضی کرنا منع نہیں‘ مثلاً: والدین کی رضا مندی کا حصول۔ ویسے بھی اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی رضا مندی اور ناراضی اکٹھی ہی ہوتی ہے۔ اللہ راضی تو رسول بھی راضی۔ اللہ ناراض تو رسول بھی ناراض‘ البتہ کسی عبادت‘ مثلاً: نماز‘ روزہ وغیرہ میں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا وثواب ہی مقصود ہونا چاہیے۔ (2) ﴿قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ﴾ صدقہ وصول کرنے والے کو صدقہ دینے والے کی طاقت بھی مدنظر رکھنی چاہیے‘ اس پر اتنا بوجھ ڈالا جائے جتنا وہ اٹھا سکے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
کعب بن مالک ؓ اپنا اس وقت کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جب وہ غزوہ تبوک میں رسول اللہ ﷺ سے پیچھے رہ گئے تھے۔ (کہتے ہیں:) میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری توبہ میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کو صدقہ کر کے اپنے مال سے الگ ہو جاؤں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم اپنا (کچھ) مال اپنے لیے روک لو یہ تمہارے لیے بہتر ہو گا“، میں نے عرض کیا: تو میں اپنے پاس اپنا وہ حصہ روک لیتا ہوں جو خیبر میں ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Abdullah bin Ka'b bin Malik said: "I heard Ka'b bin Malik narrating his Hadith about when he stayed behind and did not join the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) on the campaign to Tabuk. (he said) I said: 'As part of my repentance I want to give my wealth in charity for Allah and His Messenger.' The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) said: 'Keep some of your wealth for yourself; that is better for you.' I said: 'I will keep for myself my share that is in Khaibar.