باب: جب کوئی شخص اپنا مال بطور نذر صدقے کے لیے پیش کرے تو؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Oaths and Vows
(Chapter: Giving Away One's Wealth Because Of A Vow)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3826.
حضرت کعب بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے مجھے سچ بولنے کی وجہ سے نجات دی ہے‘ نیز میری توبہ میں سے یہ بھی ہے کہ میں اپنا سارا مال اللہ اور اس کے رسول کی رضا مندی کی خاطر صدقہ کرتے ہوئے اس سے لاتعلق ہوجاؤں۔ آپ نے فرمایا: ”اپنا کچھ مال رکھ لے‘ یہ تیرے لیے بہتر ہوگا۔“ میں نے کہا: ٹھیک ہے۔ میں اپنا خیبر والا حصہ رکھ لیتا ہوں۔
تشریح:
(1) ”خیبر والا حصہ“ یعنی غزوۂ خیبر کی غنیمت سے جو مجھے میرا حصہ ملا تھا۔ اور وہ زمین وباغ کی صورت میں تھا۔ (2) اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے دی گئی رخصت کو قبول کرنا چاہیے‘ خواہ وہ رخصت سفری نمازوں میں ہو یا دیگر معاملات میں‘ اسی میں سعادت ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3835
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3835
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3857
تمہید کتاب
عربی میں قسم کو یمین کہا جاتا ہے۔ یمین کے لغوی معنی دایاں ہاتھ ہیں۔ عرب لوگ بات کو اور سودے یا عہد کو پکا کرنے کے لیے اپنا دایاں ہاتھ فریق ثانی کے ہاتھ پر رکھتے تھے۔ قسم بھی
بات کو پختہ کرنے کے لیے ہوتی ہے‘ اس لیے کبھی قسم کے موقع پر بھی اپنا دوسرے کے ہاتھ پر رکھتے تھے۔ اس مناسبت سے قسم کو یمین کہا جاتا ہے۔
نذر سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص کسی ایسے فعل کو اپنے لیے واجب قراردے لے جو جائز ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ضروری قرار نہیں دیا‘ وہ بدنی کام ہو یا مالی۔ دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے‘ یعنی قسم کے ساتھ بھی فعل مؤکدہ ہوجاتا ہے اور نذر کے ساتھ بھی‘ لہٰذا انہیں اکٹھا ذکر کیا‘ نیز شریعت نے قسم اور نذر کا کفارہ ایک ہی رکھا ہے۔ قسم اور نذر دونوں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہی کے لیے ہوسکتی ہیں ورنہ شرک کا خطرہ ہے۔
حضرت کعب بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے مجھے سچ بولنے کی وجہ سے نجات دی ہے‘ نیز میری توبہ میں سے یہ بھی ہے کہ میں اپنا سارا مال اللہ اور اس کے رسول کی رضا مندی کی خاطر صدقہ کرتے ہوئے اس سے لاتعلق ہوجاؤں۔ آپ نے فرمایا: ”اپنا کچھ مال رکھ لے‘ یہ تیرے لیے بہتر ہوگا۔“ میں نے کہا: ٹھیک ہے۔ میں اپنا خیبر والا حصہ رکھ لیتا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
(1) ”خیبر والا حصہ“ یعنی غزوۂ خیبر کی غنیمت سے جو مجھے میرا حصہ ملا تھا۔ اور وہ زمین وباغ کی صورت میں تھا۔ (2) اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے دی گئی رخصت کو قبول کرنا چاہیے‘ خواہ وہ رخصت سفری نمازوں میں ہو یا دیگر معاملات میں‘ اسی میں سعادت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
کعب بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے مجھے صرف سچ کی وجہ سے نجات دی تو میری توبہ میں سے یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کو صدقہ کر کے اپنے مال سے الگ ہو جاؤں۔ آپ نے فرمایا: ”اپنا کچھ مال اپنے پاس روک لو یہ تمہارے لیے بہتر ہو گا“، میں نے عرض کیا: تو میں اپنا وہ حصہ روک لیتا ہوں جو خیبر میں ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Ubaydullah bin Ka'b: "I heard my father Ka'b (RA) bin Malik narrate: 'I said: O Messenger of Allah, Allah, the Mighty and Sublime, has saved me by my being truthful, and as part of my repentance I want to give my wealth in charity to Allah and His Messenger. He said: Keep some of your wealth for yourself; that is better for you. I said: I will keep my share that is in Khaibar.