باب: اگر مال صدقہ کرنے کی نذر مانے تو کیا زمین بھی اس میں داخل ہوگئی؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Oaths and Vows
(Chapter: Is Land Included If A Person Vows To Give Up Wealth?)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3827.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے‘ انہوں نے فرمایا: ہم غزوۂ خیبر والے سال رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے تو ہمیں غنیمت میں صرف مال‘ گھریلو سامان اور کپڑے وغیرہ ہی ملے تھے۔ بنوضبیب کے ایک آدمی حضرت رفاعہ بن زید ؓ نے آپ کو ایک کالا غلام بطور تحفہ دیا۔ اس کا نام مدعم تھا۔ رسول اللہ ﷺ وادئ قریٰ کی جانب چلے۔ جب ہم وادئ قریٰ میں پہنچے تو مدعم رسول اللہ ﷺ (کی سواری) کا پالان وغیرہ اتاررہا تھا کہ ایک تیر آیا۔ اسے لگا اور اسے ختم کردیا۔ لوگ کہنے لگے: اسے جنت مبارک ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہرگز نہیں‘ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! بلاشبہ وہ چادر جو اس نے غزوۂ خیبر کے دن (میری اجازت کے بغیر) مال غنیمت سے اٹھائی گئی تھی‘ اس پر آگ بن کر بھڑک رہی ہے۔‘ جب لوگوں نے یہ بات سنی تو کوئی آدمی ایک تسمہ‘ کوئی دو تسمے لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ ایک دو تسمے بھی آگ کا سبب بن سکتے ہیں۔“
تشریح:
(1) غزوۂ خیبر میں رسول اللہ ﷺ کو غنیمت میں زمینں تو قطعاً ملی تھیں جبکہ اس حدیث میں زمین کا صراحتاً ذکر نہیں بلکہ لفظ ”اموال“ ذکر ہے۔ لازمی بات ہے کہ اموال سے مراد زمین ہی ہوگی اور یہی باب کا مقصود ہے کہ اگر مال کی نذر مانے تو زمین بھی اس میں داخل ہوگی۔ سابقہ روایات جن میں کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی نذر کا ذکر ہے‘ وہ بھی اس مقصود پر دلالت کرتی ہیں کیونکہ ان میں مال صدقہ کرنے ہی کی نذر تھی‘ بعد میں حضرت کعب نے خیبر کی زمین کو اس سے مستثنیٰ کیا تھا۔ معلوم ہوا کہ مال کی نذر میں زمین بھی شامل تھی۔ (2) ”جنت مبارک ہو“ بظاہر کیونکہ وہ سفر جہاد کے دوران میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت کرتے ہوئے کسی کافر کے تیر سے شہید ہوا تھا۔ (3) ”سبب بن سکتے ہیں“ اگر خیانت کے ساتھ حاصل کیے جائیں اور بیت المال میں جمع نہ کرائے جائیں‘ یعنی معمولی اشیاء میں خیانت عذاب کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3836
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3836
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3858
تمہید کتاب
عربی میں قسم کو یمین کہا جاتا ہے۔ یمین کے لغوی معنی دایاں ہاتھ ہیں۔ عرب لوگ بات کو اور سودے یا عہد کو پکا کرنے کے لیے اپنا دایاں ہاتھ فریق ثانی کے ہاتھ پر رکھتے تھے۔ قسم بھی
بات کو پختہ کرنے کے لیے ہوتی ہے‘ اس لیے کبھی قسم کے موقع پر بھی اپنا دوسرے کے ہاتھ پر رکھتے تھے۔ اس مناسبت سے قسم کو یمین کہا جاتا ہے۔
نذر سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص کسی ایسے فعل کو اپنے لیے واجب قراردے لے جو جائز ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ضروری قرار نہیں دیا‘ وہ بدنی کام ہو یا مالی۔ دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے‘ یعنی قسم کے ساتھ بھی فعل مؤکدہ ہوجاتا ہے اور نذر کے ساتھ بھی‘ لہٰذا انہیں اکٹھا ذکر کیا‘ نیز شریعت نے قسم اور نذر کا کفارہ ایک ہی رکھا ہے۔ قسم اور نذر دونوں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہی کے لیے ہوسکتی ہیں ورنہ شرک کا خطرہ ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے‘ انہوں نے فرمایا: ہم غزوۂ خیبر والے سال رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے تو ہمیں غنیمت میں صرف مال‘ گھریلو سامان اور کپڑے وغیرہ ہی ملے تھے۔ بنوضبیب کے ایک آدمی حضرت رفاعہ بن زید ؓ نے آپ کو ایک کالا غلام بطور تحفہ دیا۔ اس کا نام مدعم تھا۔ رسول اللہ ﷺ وادئ قریٰ کی جانب چلے۔ جب ہم وادئ قریٰ میں پہنچے تو مدعم رسول اللہ ﷺ (کی سواری) کا پالان وغیرہ اتاررہا تھا کہ ایک تیر آیا۔ اسے لگا اور اسے ختم کردیا۔ لوگ کہنے لگے: اسے جنت مبارک ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہرگز نہیں‘ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! بلاشبہ وہ چادر جو اس نے غزوۂ خیبر کے دن (میری اجازت کے بغیر) مال غنیمت سے اٹھائی گئی تھی‘ اس پر آگ بن کر بھڑک رہی ہے۔‘ جب لوگوں نے یہ بات سنی تو کوئی آدمی ایک تسمہ‘ کوئی دو تسمے لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ ایک دو تسمے بھی آگ کا سبب بن سکتے ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) غزوۂ خیبر میں رسول اللہ ﷺ کو غنیمت میں زمینں تو قطعاً ملی تھیں جبکہ اس حدیث میں زمین کا صراحتاً ذکر نہیں بلکہ لفظ ”اموال“ ذکر ہے۔ لازمی بات ہے کہ اموال سے مراد زمین ہی ہوگی اور یہی باب کا مقصود ہے کہ اگر مال کی نذر مانے تو زمین بھی اس میں داخل ہوگی۔ سابقہ روایات جن میں کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی نذر کا ذکر ہے‘ وہ بھی اس مقصود پر دلالت کرتی ہیں کیونکہ ان میں مال صدقہ کرنے ہی کی نذر تھی‘ بعد میں حضرت کعب نے خیبر کی زمین کو اس سے مستثنیٰ کیا تھا۔ معلوم ہوا کہ مال کی نذر میں زمین بھی شامل تھی۔ (2) ”جنت مبارک ہو“ بظاہر کیونکہ وہ سفر جہاد کے دوران میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت کرتے ہوئے کسی کافر کے تیر سے شہید ہوا تھا۔ (3) ”سبب بن سکتے ہیں“ اگر خیانت کے ساتھ حاصل کیے جائیں اور بیت المال میں جمع نہ کرائے جائیں‘ یعنی معمولی اشیاء میں خیانت عذاب کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ خیبر کے سال ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، ہمیں مال،۱؎ سامان اور کپڑوں کے علاوہ کوئی غنیمت نہ ملی تو بنو ضبیب کے رفاعہ بن زید نامی ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کو مدعم نامی ایک کالا غلام ہدیہ کیا، رسول اللہ ﷺ نے وادی قریٰ کا رخ کیا، یہاں تک کہ جب ہم وادی قریٰ میں پہنچے تو مدعم رسول اللہ ﷺ کا کجاوا اتار رہا تھا کہ اسی دوران اچانک ایک تیر آ کر اسے لگا اور اسے قتل کر ڈالا، لوگوں نے کہا کہ تمہیں جنت مبارک ہو، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہرگز نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! وہ کملی جو اس نے غنیمت کے مال سے خیبر کے روز لے لی تھی (اور مال تقسیم نہ ہوا تھا) اس کے سر پر آگ بن کر دہک رہی ہے“جب لوگوں نے یہ بات سنی تو ایک شخص چمڑے کا ایک یا دو تسمہ رسول اللہ ﷺ کے پاس لے کر آیا تو آپ نے فرمایا: ”یہ ایک یا دو تسمے آگ کے ہیں.“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اسی لفظ میں باب سے مطابقت ہے، کیونکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اموال کے لفظ سے زمینیں (آراضی) مراد لی ہیں (خیبر میں زیادہ زمینیں مال غنیمت میں ہاتھ آئی تھیں) اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی صرف”مال“ کی نذر مانے تو اس مال میں زمین بھی داخل گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Hurairah said: "We were with the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) in the year of Khaibar, and we did not get any spoils of war except for wealth, goods and clothes. Then a man from Banu Ad-Dubaib, who was called Rifa'ah bin Zaid, gave the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) a black slave who was called Mid'am. The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) set out for Wadi Al-Qura. When we were in Wadi Al-Qura, while Mid'am was unloading the luggage of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم), an arrow came and killed him. The people said: 'Congratulations! You will go to Paradise,' but the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) said: 'No, by the One in Whose hand is my soul! The cloak that he took from the spoils of war on the Day of Khaibar is burning him with fire.' When the people heard that, a man brought one or two shoelaces to the Messenger of Allah and the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) said: 'One or two shoelaces of fire.