باب: تہائی یا چوتھائی پیداوار کی شرط پر زمین بٹائی پر دینے سے ممانعت کی مختلف روایات اور اس روایت کے ناقلین کے اختلافات الفاظ کا ذکر
)
Sunan-nasai:
The Book of Agriculture
(Chapter: Mentioning The Differing Hadiths Regarding The Prohibition Of Leasing Out Land In Return For One Third, Or One Quarter Of The Harvest And The Different Wordings Reported By The Narrators)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3879.
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے مخابرہ‘ مزابنہ‘ محاقلہ اور کچے پھلوں کی بیع سے منع فرمایا ہے مگر عرایا کی بیع ہوسکتی ہے۔ یونس بن عبید نے ابن جریج کی متابعت کی ہے۔
تشریح:
(1) مخابرہ بٹائی پر زمین دینے کو کہا جاتا ہے۔ منع کی تفصیل پیچھے بیان ہوچکی ہے۔ (2) مزابنہ‘ درخت پر لگے ہوئے پھل کی بیع معین مقدار میں خشک پھل کے عوض کرنا اور محاقلہ‘ کھیت میں اُگی ہوئی فصل کی بیع معین مقدار میں خشک غلے کے عوض کرنا۔ (ان دو کی ممانعت کی وجہ دیکھیے‘ فائدہ حدیث: ۳۸۹۴ میں۔) (3) کچے پھل کی بیع اس لیے منع ہے کہ اس کے پکنے تک کئی آفات نازل ہوسکتی ہیں۔ بعد میں جھگڑے کا احتمال ہے‘ نیز اس میں خریدار کو نقصان کا قوی احتمال ہے جبکہ بیچنے والا اپنی رقم لے چکا ہے۔ ہوسکتا ہے پھل ضائع ہوجائے۔ خریدار رقم کہاں سے اور کیوں دے گا؟ (4) عرایا‘ عریۃ کی جمع ہے۔ یہ مزابنہ سے استثنا ہے۔ عریہ سے مراد وہ درخت ہے جو کہ کوئی باغ والا کسی غریب آدمی کو تحفہ دے دیتا ہے کہ اس سال اس درخت کا پھل تو استعمال کر۔ درخت اصل مالک ہی کا رہتا ہے‘ جبکہ پھل کی دیکھ بھال اور نگہداشت وغیرہ کے لیے اس غریب شخص کو باغ میں آنا جانا پڑے گا۔ ممکن ہے اس کے آنے جانے سے باغ والے کو تکلیف ہو یا وہ غریب شخص اتنی دیر تک پھل کے پکنے کا انتظار نہ کرسکتا ہو‘ لہٰذا شریعت نے فریقین کی مجبوری کو مدنظر رکھتے ہوئے اجازت دی ہے کہ وہ اس درخت پر موجودہ پھل کی بیع خشک معین پھل کے ساتھ کرلیں۔ اس غریب شخص کو خشک پھل مل جائے گا۔ درخت پھل سمیت باغ والے کو واپس چلا جائے گا۔ یہ بھی مزابنہ ہی ہے مگر غریب شخص کے لیے تھوڑی مقدار میں (تقریباً بیس من تک) اس کی خصوصی اجازت دی گئی ہے۔
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے مخابرہ‘ مزابنہ‘ محاقلہ اور کچے پھلوں کی بیع سے منع فرمایا ہے مگر عرایا کی بیع ہوسکتی ہے۔ یونس بن عبید نے ابن جریج کی متابعت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) مخابرہ بٹائی پر زمین دینے کو کہا جاتا ہے۔ منع کی تفصیل پیچھے بیان ہوچکی ہے۔ (2) مزابنہ‘ درخت پر لگے ہوئے پھل کی بیع معین مقدار میں خشک پھل کے عوض کرنا اور محاقلہ‘ کھیت میں اُگی ہوئی فصل کی بیع معین مقدار میں خشک غلے کے عوض کرنا۔ (ان دو کی ممانعت کی وجہ دیکھیے‘ فائدہ حدیث: ۳۸۹۴ میں۔) (3) کچے پھل کی بیع اس لیے منع ہے کہ اس کے پکنے تک کئی آفات نازل ہوسکتی ہیں۔ بعد میں جھگڑے کا احتمال ہے‘ نیز اس میں خریدار کو نقصان کا قوی احتمال ہے جبکہ بیچنے والا اپنی رقم لے چکا ہے۔ ہوسکتا ہے پھل ضائع ہوجائے۔ خریدار رقم کہاں سے اور کیوں دے گا؟ (4) عرایا‘ عریۃ کی جمع ہے۔ یہ مزابنہ سے استثنا ہے۔ عریہ سے مراد وہ درخت ہے جو کہ کوئی باغ والا کسی غریب آدمی کو تحفہ دے دیتا ہے کہ اس سال اس درخت کا پھل تو استعمال کر۔ درخت اصل مالک ہی کا رہتا ہے‘ جبکہ پھل کی دیکھ بھال اور نگہداشت وغیرہ کے لیے اس غریب شخص کو باغ میں آنا جانا پڑے گا۔ ممکن ہے اس کے آنے جانے سے باغ والے کو تکلیف ہو یا وہ غریب شخص اتنی دیر تک پھل کے پکنے کا انتظار نہ کرسکتا ہو‘ لہٰذا شریعت نے فریقین کی مجبوری کو مدنظر رکھتے ہوئے اجازت دی ہے کہ وہ اس درخت پر موجودہ پھل کی بیع خشک معین پھل کے ساتھ کرلیں۔ اس غریب شخص کو خشک پھل مل جائے گا۔ درخت پھل سمیت باغ والے کو واپس چلا جائے گا۔ یہ بھی مزابنہ ہی ہے مگر غریب شخص کے لیے تھوڑی مقدار میں (تقریباً بیس من تک) اس کی خصوصی اجازت دی گئی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے بیع مخابرہ اور مزابنہ، محاقلہ سے اور ان پھلوں کو بیچنے سے منع فرمایا ہے جو ابھی کھانے کے قابل نہ ہوئے ہوں، سوائے بیع عرایا کے۱؎ ۔ یونس بن عبید نے اس کی متابعت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : مخابرہ : زمین کو آدھی یا تہائی یا چوتھائی پیداوار پر بٹائی پر دینا ، کہتے ہیں : مخابرہ ” خیبر “ سے ماخوذ ہے ، یعنی خیبر کی زمینوں کے ساتھ جو معاملہ کیا گیا اس کو ” مخابرہ “ کہتے ہیں ۔ حالانکہ خیبر میں جو معاملہ کیا گیا وہ جائز ہے ، اسی لیے تو وہ معاملہ کیا گیا ، مؤلف نے حدیث نمبر ۳۹۱۴ میں مخابرہ کی تعریف یہ کی ہے کہ ” انگور جو ابھی بیلوں میں ہو کو اس انگور کے بدلے بیچنا جس کو توڑ لیا گیا ہو ، یہی سب سے مناسب تعریف ہے جو ” مزابنہ “ اور ” محاقلہ “ سے مناسبت رکھتی ہے ۔ مزابنہ : درخت پر لگے ہوئے پھل کو توڑے ہوئے پھل کے بدلے معینہ مقدار سے بیچنے کو مزابنہ کہتے ہیں ۔ محاقلہ : کھیت میں لگی ہوئی فصل کا اندازہ کر کے اسے غلّہ سے بیچنا ۔ عرایا : عرایا یہ ہے کہ مالک کا باغ ایک یا دو درخت کے پھل کسی مسکین و غریب کو کھانے کے لیے مفت دیدے ، اور اس کے آنے جانے سے تکلیف ہو تو مالک اس درخت کے پھلوں کا اندازہ کر کے مسکین و فقیر سے خرید لے اور اس کے بدلے تر یا خشک پھل اس کے حوالے کر دے ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Jabir that the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) forbade Al-Mukhabarah, Al-Muzabanah and Al-Muhaqalah, and selling fruit until it is fit to eat (ripe enough), except in the case of Al-'Araya.