باب: تہائی یا چوتھائی پیداوار کی شرط پر زمین بٹائی پر دینے سے ممانعت کی مختلف روایات اور اس روایت کے ناقلین کے اختلافات الفاظ کا ذکر
)
Sunan-nasai:
The Book of Agriculture
(Chapter: Mentioning The Differing Hadiths Regarding The Prohibition Of Leasing Out Land In Return For One Third, Or One Quarter Of The Harvest And The Different Wordings Reported By The Narrators)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3898.
حضرت رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے‘ کہتے ہیں کہ مجھے میرے چچا نے بیان فرمایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے دور میں نالوں کے قریب اگنے والی کھیتی یا متعین غلہ جسے زمین والا خود مستثنیٰ کرتا تھا‘ کے عوض زمین کرائے پر دیتے تھے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اس کام سے منع فرما دیا۔ (راوئ کہتا ہے:) میں نے حضرت رافع سے پوچھا: دینار اور درہم (روپے پیسے) کے عوض ٹھیکے پر زمین دینا کیسا ہے؟ تو حضرت رافع نے فرمایا: سونے چاندی (روپے پیسے) کے عوض ٹھیکے پر دینے میں کوئی حرج نہیں۔ امام اوزاعی ؓ نے اس (لیثْ) کی مخالفت کی ہے۔
تشریح:
(1) ”اوزاعی نے مخالفت کی ہے۔“ یہ مخالفت اس طرح ہے کہ لیث اور اوزاعی دونوں ربیعہ بن ابی عبدالرحمن سے بیان کرتے ہیں‘ ربیعہ بیان کرتے ہیں حنظلہ بن قیس سے اور وہ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے‘ لیکن لیث اپنی روایت میں حضرت رافع کے چچا کا ذکر کرتے ہیں جیسا کہ اوپر ذکر ہوا‘ جبکہ اوزاعی اپنی روایت میں ”چچا“ کا ذکر نہیں کرتے۔ (2) ”کوئی حرج نہیں۔“ حرج تو بٹائی میں بھی کوئی نہیں اگر اس میں کوئی ظلم والی شرط نہ ہو‘ البتہ فالتو زمین والے کے لیے بہتر ہے کہ وہ فالتو زمین ٹھیکے یا بٹائی کی بجائے کسی غریب بھائی کو سال دو سال کے لیے ویسے ہی کاشت کرنے کے لیے دے دے۔
حضرت رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے‘ کہتے ہیں کہ مجھے میرے چچا نے بیان فرمایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے دور میں نالوں کے قریب اگنے والی کھیتی یا متعین غلہ جسے زمین والا خود مستثنیٰ کرتا تھا‘ کے عوض زمین کرائے پر دیتے تھے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اس کام سے منع فرما دیا۔ (راوئ کہتا ہے:) میں نے حضرت رافع سے پوچھا: دینار اور درہم (روپے پیسے) کے عوض ٹھیکے پر زمین دینا کیسا ہے؟ تو حضرت رافع نے فرمایا: سونے چاندی (روپے پیسے) کے عوض ٹھیکے پر دینے میں کوئی حرج نہیں۔ امام اوزاعی ؓ نے اس (لیثْ) کی مخالفت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ”اوزاعی نے مخالفت کی ہے۔“ یہ مخالفت اس طرح ہے کہ لیث اور اوزاعی دونوں ربیعہ بن ابی عبدالرحمن سے بیان کرتے ہیں‘ ربیعہ بیان کرتے ہیں حنظلہ بن قیس سے اور وہ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے‘ لیکن لیث اپنی روایت میں حضرت رافع کے چچا کا ذکر کرتے ہیں جیسا کہ اوپر ذکر ہوا‘ جبکہ اوزاعی اپنی روایت میں ”چچا“ کا ذکر نہیں کرتے۔ (2) ”کوئی حرج نہیں۔“ حرج تو بٹائی میں بھی کوئی نہیں اگر اس میں کوئی ظلم والی شرط نہ ہو‘ البتہ فالتو زمین والے کے لیے بہتر ہے کہ وہ فالتو زمین ٹھیکے یا بٹائی کی بجائے کسی غریب بھائی کو سال دو سال کے لیے ویسے ہی کاشت کرنے کے لیے دے دے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
رافع بن خدیج ؓ کہتے ہیں کہ میرے چچا نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اس کے بدلے زمین کو بٹائی پر دیتے تھے جو پانی کی کیاریوں پر پیدا ہوتا تھا اور تھوڑی سی اس پیداوار کے بدلے جو زمین کا مالک مستثنی (الگ) کر لیتا تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اس سے روک دیا۔ میں نے رافع ؓ سے کہا: تو دینار اور درہم سے کرائے پر دینا کیسا تھا؟ رافع ؓ نے کہا: دینار اور درہم کے بدلے دینے میں کوئی حرج نہیں۔ اوزاعی نے لیث کی مخالفت کی ہے، (ان کی روایت آگے آ رہی ہے جس میں ”چچا“ کا ذکر نہیں ہے)۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Rafi' bin Khadij said: "My paternal uncle told me that they used to lease land at the time of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) in return for what grew on the banks of the streams, and a share of the crop stipulated by the owner of the land. But the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) forbade us that." I (Hanzalah) said to Rafi': "How about leasing it in return for Dinars and Dirhams?" Rafi' said: "There is nothing wrong with (leasing it) for Dinars and Dirhams. Al-Awzá’I differed with him.