باب: مزارعت (بٹائی) کے بارے میں منقول الفاظ کے اختلاف کا بیان
)
Sunan-nasai:
The Book of Agriculture
(Chapter: Mentioning The Different Wordings With Regard To Sharecropping)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3930.
حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے خیبر کے یہودیوں کو خیبر کی زمین اور کھجوروں کے درخت اس شرط پر دیے تھے کہ وہ اپنے مالوں کے ساتھ ان میں کام کریں گے اور رسول اللہ ﷺ کو (بحیثیت مالک ہونے کے) اس زمین کا نصف پھل ملے گا۔
تشریح:
کھجوروں یا کسی بھی پھل کے درخت کسی شخص کے سپرد کردیے جائیں کہ وہ انہیں پانی لگائے‘ درختوں کی دیکھ بھال اور خدمت کرے حتیٰ کہ جب وہ پھل دیں گے تو نصف (یا کوئی اور حصہ) پھل اسے مل جائے گا۔ اسے عربی زبان میں مساقات کہتے ہیں۔ اور اگر کسی کو خالی زمین دے دی جائے کہ وہ اس میں کاشت کرے‘ محنت کرے اور پیداوار کا ایک معین حصہ (مثلاً تہائی‘ چوتھائی یا نصف) اسے ملے گا‘ اسے مخابرت یا مزارعت یا بٹائی کہا جاتا ہے۔ گویا آپ ﷺ نے یہودیوں سے مساقات بھی کی اور مزارعت بھی۔ اور یہ دونوں جائز ہیں۔ بعض لوگ جو بٹائی کو جائز نہیں سمجھتے‘ وہ مساقات کو جائز سمجھتے ہیں اور مساقات کے بالتبع مزارعت کو بھی‘ یعنی اگر کھجور یا کسی بھی پھل دار درختوں والی زمین بھی درختوں کے ساتھ دے دی جائے اور وہ درختوں کی خدمت اور نگہبانی کے ساتھ ساتھ اس زمین میں کاشت بھی کرے تو اسے پھلوں کے ساتھ ساتھ فصل سے بھی حصہ دیا جاسکتا ہے‘ حالانکہ مساقات اور مزارعت میں کوئی فرق نہیں۔ اگر جائز ہیں تو دونوں جائز ہیں ورنہ دونوں ناجائز۔ کسی ایک کو دوسرے کے بالتبع جائز قراردینا بھی عجیب بات ہے۔ اگر بٹائی ناجائز ہے تو مساقات کے بالتیع کیونکر جائز ہوگی؟ دراصل دونوں جائز ہیں۔ اکٹھے بھی اور الگ الگ بھی۔ ہر مسلک کے محقق علماء اسی کے قائل ہیں۔ محدثین تو تمام کے تمام جائز سمجھتے ہیں۔ والحمد للہ علی ذالك
حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے خیبر کے یہودیوں کو خیبر کی زمین اور کھجوروں کے درخت اس شرط پر دیے تھے کہ وہ اپنے مالوں کے ساتھ ان میں کام کریں گے اور رسول اللہ ﷺ کو (بحیثیت مالک ہونے کے) اس زمین کا نصف پھل ملے گا۔
حدیث حاشیہ:
کھجوروں یا کسی بھی پھل کے درخت کسی شخص کے سپرد کردیے جائیں کہ وہ انہیں پانی لگائے‘ درختوں کی دیکھ بھال اور خدمت کرے حتیٰ کہ جب وہ پھل دیں گے تو نصف (یا کوئی اور حصہ) پھل اسے مل جائے گا۔ اسے عربی زبان میں مساقات کہتے ہیں۔ اور اگر کسی کو خالی زمین دے دی جائے کہ وہ اس میں کاشت کرے‘ محنت کرے اور پیداوار کا ایک معین حصہ (مثلاً تہائی‘ چوتھائی یا نصف) اسے ملے گا‘ اسے مخابرت یا مزارعت یا بٹائی کہا جاتا ہے۔ گویا آپ ﷺ نے یہودیوں سے مساقات بھی کی اور مزارعت بھی۔ اور یہ دونوں جائز ہیں۔ بعض لوگ جو بٹائی کو جائز نہیں سمجھتے‘ وہ مساقات کو جائز سمجھتے ہیں اور مساقات کے بالتبع مزارعت کو بھی‘ یعنی اگر کھجور یا کسی بھی پھل دار درختوں والی زمین بھی درختوں کے ساتھ دے دی جائے اور وہ درختوں کی خدمت اور نگہبانی کے ساتھ ساتھ اس زمین میں کاشت بھی کرے تو اسے پھلوں کے ساتھ ساتھ فصل سے بھی حصہ دیا جاسکتا ہے‘ حالانکہ مساقات اور مزارعت میں کوئی فرق نہیں۔ اگر جائز ہیں تو دونوں جائز ہیں ورنہ دونوں ناجائز۔ کسی ایک کو دوسرے کے بالتبع جائز قراردینا بھی عجیب بات ہے۔ اگر بٹائی ناجائز ہے تو مساقات کے بالتیع کیونکر جائز ہوگی؟ دراصل دونوں جائز ہیں۔ اکٹھے بھی اور الگ الگ بھی۔ ہر مسلک کے محقق علماء اسی کے قائل ہیں۔ محدثین تو تمام کے تمام جائز سمجھتے ہیں۔ والحمد للہ علی ذالك
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے یہود خیبر کو خیبر کے باغات اور اس کی زمین اس شرط پر دی کہ وہ اپنے خرچ پر اس میں کام کریں گے اور رسول اللہ ﷺ کے لیے اس کے پھل کا آدھا ہو گا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn 'Umar that the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) gave the datepalms of Khaibar and their land to the Jews of Khaibar on condition that they would take care of them at their expense, and the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) would have half of their fruits.