باب: مزارعت (بٹائی) کے بارے میں منقول الفاظ کے اختلاف کا بیان
)
Sunan-nasai:
The Book of Agriculture
(Chapter: Mentioning The Different Wordings With Regard To Sharecropping)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3935.
حضرت محمد بن سیرین بیان کرتے ہیں کہ میرے علم کے مطابق حضرت قاضی شریح مضارب کے بارے میں دوفیصلے فرماتے تھے: کبھی تو وہ مضارب سے کہتے کہ تجھے پہنچنے والی مصیبت پر کوئی گواہ یا دلیل پیش کرو تاکہ تمہیں معذور قراردیا جائے اور کبھی مال والے کو کہتے کہ تم دلیل اور گواہ پیش کرو جس کے پاس تم نے امانت رکھی ہے‘ اس نے خیانت کی ہے ورنہ اس سے قسم لی جائے گی اس نے تجھ سے خیانت نہیں کی۔
تشریح:
(1) ایک شخص دوسرے کو کچھ رقم دے کر کہے کہ تم اس سے کاروبار کرو‘ نفع ہم دونوں تقسیم کرلیں گے۔ اسے مضارب کہتے ہیں۔ رقم دینے والا تو مالک مال ہے اور لینے والے کو مضارب کہتے ہیں جو اس رقم سے کاروبار کرتا ہے۔ اگر مضارب آ کر کہہ دے کہ جناب! اصل مال سب یا کچھ چوری ہوگیا یا گم ہوگیا تو کیا فیصلہ ہوگا؟ مذکورہ حدیث میں یہ مسئلہ زیر بحث ہے۔ قاضی شریح جو کہ خلفائے راشدین کے دور کے قاضی القضاۃ تھے‘ کہ سامنے ایسا مسئلہ پیش ہوتا تھا تو وہ اندازہ لگاتے تھے کہ مضارب مشکوک ہے یا نہیں۔ اگر وہ مشکوک نظر آتا تو اسے کہتے: اپنی بات کا ثبوت پیش کرو ورنہ تمہاری بات نہیں مانی جائے گی اور اگر وہ بے گناہ نظر آتا تو مالک مال سے فرماتے کہ تم اس کی خیانت کا ثبوت پیش کرو‘ ورنہ اس کا خلیفہ بیان تسلیم کرلیا جائے گا۔ گویا وہ کبھی اسے مدعی قراردیتے اور کبھی مدعی علیہ کیونکہ اس لحاظ سے کہ وہ نقصان کا دعویٰ کررہا ہے‘ مدعی بن سکتا ہے اور اس لحاظ سے کہ تقاضے کے مطابق کہ کسی فریق پر زیادتی نہ ہو‘ اسے دونوں میں سے کوئی ایک بنایا جاسکتا ہے۔ (2) مزارعت کے باب میں اس حدیث کا تعلق یہ ہے کہ مزارعت بھی مضاربت کی طرح ہے اور اسی پر قیاس ہے‘ لہٰذا اگر مالک زمین اور مزارع کے درمیان کوئی جھگڑا پیدا ہوجائے تو عدالت قاضی شریح رحمہ اللہ کے انداز فیصلہ سے رہنمائی حاصل کرسکتی ہے‘ یعنی مزارع کو مدعی بھی بنایا جاسکتا ہے اور مدعی علیہ بھی۔
حضرت محمد بن سیرین بیان کرتے ہیں کہ میرے علم کے مطابق حضرت قاضی شریح مضارب کے بارے میں دوفیصلے فرماتے تھے: کبھی تو وہ مضارب سے کہتے کہ تجھے پہنچنے والی مصیبت پر کوئی گواہ یا دلیل پیش کرو تاکہ تمہیں معذور قراردیا جائے اور کبھی مال والے کو کہتے کہ تم دلیل اور گواہ پیش کرو جس کے پاس تم نے امانت رکھی ہے‘ اس نے خیانت کی ہے ورنہ اس سے قسم لی جائے گی اس نے تجھ سے خیانت نہیں کی۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک شخص دوسرے کو کچھ رقم دے کر کہے کہ تم اس سے کاروبار کرو‘ نفع ہم دونوں تقسیم کرلیں گے۔ اسے مضارب کہتے ہیں۔ رقم دینے والا تو مالک مال ہے اور لینے والے کو مضارب کہتے ہیں جو اس رقم سے کاروبار کرتا ہے۔ اگر مضارب آ کر کہہ دے کہ جناب! اصل مال سب یا کچھ چوری ہوگیا یا گم ہوگیا تو کیا فیصلہ ہوگا؟ مذکورہ حدیث میں یہ مسئلہ زیر بحث ہے۔ قاضی شریح جو کہ خلفائے راشدین کے دور کے قاضی القضاۃ تھے‘ کہ سامنے ایسا مسئلہ پیش ہوتا تھا تو وہ اندازہ لگاتے تھے کہ مضارب مشکوک ہے یا نہیں۔ اگر وہ مشکوک نظر آتا تو اسے کہتے: اپنی بات کا ثبوت پیش کرو ورنہ تمہاری بات نہیں مانی جائے گی اور اگر وہ بے گناہ نظر آتا تو مالک مال سے فرماتے کہ تم اس کی خیانت کا ثبوت پیش کرو‘ ورنہ اس کا خلیفہ بیان تسلیم کرلیا جائے گا۔ گویا وہ کبھی اسے مدعی قراردیتے اور کبھی مدعی علیہ کیونکہ اس لحاظ سے کہ وہ نقصان کا دعویٰ کررہا ہے‘ مدعی بن سکتا ہے اور اس لحاظ سے کہ تقاضے کے مطابق کہ کسی فریق پر زیادتی نہ ہو‘ اسے دونوں میں سے کوئی ایک بنایا جاسکتا ہے۔ (2) مزارعت کے باب میں اس حدیث کا تعلق یہ ہے کہ مزارعت بھی مضاربت کی طرح ہے اور اسی پر قیاس ہے‘ لہٰذا اگر مالک زمین اور مزارع کے درمیان کوئی جھگڑا پیدا ہوجائے تو عدالت قاضی شریح رحمہ اللہ کے انداز فیصلہ سے رہنمائی حاصل کرسکتی ہے‘ یعنی مزارع کو مدعی بھی بنایا جاسکتا ہے اور مدعی علیہ بھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ مجھے معلوم ہے کہ شریح مضارب۱؎ کے سلسلے میں صرف دو طرح کے فیصلے دیتے تھے، کبھی مضارب سے کہتے کہ تم اس مصیبت پر گواہ لے کر آؤ جس کی وجہ سے تم معذور قرار دیئے جاؤ، اور کبھی صاحب مال سے کہتے: تم اس بات کا گواہ لے کر آؤ کہ تمہارے امین (مضارب) نے خیانت کی ہے۔ ورنہ اس سے اللہ کی قسم لی جائے گی کہ اس نے خیانت نہیں کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : مضارب (راء کے زیر کے ساتھ) اسے کہتے ہیں جو کسی دوسرے کے مال سے تجارت کرے یعنی محنت اس شخص کی ہو اور پیسہ کسی اور کا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Muhammad said: "I do not know that Shuraih ever ruled on Mudarabah disputes except in two ways. He would say to the Mudarib (the one who contributed his labor to the partnership): 'You must provide proof that a calamity befell you so that you may be excused.' Or he would say to the one who invested his money in the partnership: 'You must provide proof that your trustee betrayed his trust, otherwise his oath sworn by Allah that he did not betray you is sufficient.'"